Book - حدیث 4693

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْقَدَرِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ, جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْيَضُ، وَالْأَسْوَدُ، وَبَيْنَ ذَلِكَ, وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ<. زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى >وَبَيْنَ ذَلِكَ<. وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ

ترجمہ Book - حدیث 4693

کتاب: سنتوں کا بیان باب: تقدیر کا بیان سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ چنانچہ آدم کی اولاد اس مٹی کے لحاظ سے ہوئی ہے ، کئی سرخ ہیں اور کئی سفید ، کئی سیاہ ہیں اور کئی ان کے بین بین ۔ کئی نرم خو ہیں اور کئی سخت طبیعت ۔ کئی بری طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور کئی اچھی اور عمدہ طبیعت والے ۔ “ یحییٰ بن سعید کی روایت میں اضافہ ہے ” اور کئی ان کے درمیان درمیان ہیں ۔ “ یزید ( یزید بن زریع ) کی روایت میں «أخبرنا» کا صیغہ استعمال ہوا ہے ۔
تشریح : اس حدیث میں مجبور اور صاحب اختیار ہونے کا مسئلہ حل فرمایا گیا ہے ۔انسان کا گورایا کالا ہونا اس کی طبعیت کا سخت یانرم ہونا۔ ایسا معاملہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں اس میں وہ مجبور محض ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ طبعیت کی نرمی کو اہل ایمان کے لئے سختی کو کفار کے مقابلے میں استعمال کرے ۔ اسی طرح جس میں خیر اور بھلائی کا عنصر ہے اسے اپنے خالق کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اس خیر اور بھلائی کی حفاظت کرنی چاہیے اور جس میں دوسری کیفیت ہو اسے چاہیے کہ رب ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور توفیق طلب کرے کہ وہ اس کی اس حالت کو بدل دے مگر اپنی غلط عادات پر ڈٹے رہنا اور تقدیر کو مور د الزام تھہراناکسی طرح جائز نہیں ۔ اگر تقدیر کے معنی جبر ہوں تو یہ لوگ اپنی بد قماشیوں میں کیوں محنت کرتے ہیں ؟یہ محنت اور کوشش نیکی اور خیر کے لئے بھی ہو سکتی ہے !وہ بد قماشی یا مادی فائدہ اپنی محنت کےثمرات سمجھتے ہیں توان کے ذمہ دار بھی ہیں ۔ اللہ تعالی نے زندگی ،صحت ،عافیت،فہموفراست اور صلاحیت اور اچھائی سے فطری محبت جیسی تمام نعمتوں سے ہر انسان کو نیکی کی توفیق دی ہوئی ہے ،نیکی ہی راستے پر ہر ایک کو آگے بڑھنا چاہیے اس حدیث میں مجبور اور صاحب اختیار ہونے کا مسئلہ حل فرمایا گیا ہے ۔انسان کا گورایا کالا ہونا اس کی طبعیت کا سخت یانرم ہونا۔ ایسا معاملہ ہے جس میں اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں اس میں وہ مجبور محض ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ طبعیت کی نرمی کو اہل ایمان کے لئے سختی کو کفار کے مقابلے میں استعمال کرے ۔ اسی طرح جس میں خیر اور بھلائی کا عنصر ہے اسے اپنے خالق کا بہت زیادہ شکر ادا کرتے ہوئے اپنی اس خیر اور بھلائی کی حفاظت کرنی چاہیے اور جس میں دوسری کیفیت ہو اسے چاہیے کہ رب ذوالجلال کی طرف رجوع کرے اور توفیق طلب کرے کہ وہ اس کی اس حالت کو بدل دے مگر اپنی غلط عادات پر ڈٹے رہنا اور تقدیر کو مور د الزام تھہراناکسی طرح جائز نہیں ۔ اگر تقدیر کے معنی جبر ہوں تو یہ لوگ اپنی بد قماشیوں میں کیوں محنت کرتے ہیں ؟یہ محنت اور کوشش نیکی اور خیر کے لئے بھی ہو سکتی ہے !وہ بد قماشی یا مادی فائدہ اپنی محنت کےثمرات سمجھتے ہیں توان کے ذمہ دار بھی ہیں ۔ اللہ تعالی نے زندگی ،صحت ،عافیت،فہموفراست اور صلاحیت اور اچھائی سے فطری محبت جیسی تمام نعمتوں سے ہر انسان کو نیکی کی توفیق دی ہوئی ہے ،نیکی ہی راستے پر ہر ایک کو آگے بڑھنا چاہیے