Book - حدیث 4688

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ صحیح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ, فَهُوَ مُنَافِقٌ خَالِصٌ، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْهُنَّ, كَانَ فِيهِ خَلَّةٌ مِنْ نِفَاقٍ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ

ترجمہ Book - حدیث 4688

کتاب: سنتوں کا بیان باب: ایمان کے کم و بیش ہونے کے دلائل سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” چار خصلتیں جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ یعنی جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو خلاف کرے ، عہد معاہدہ کرے تو دھوکہ دے اور اگر جھگڑا ہو جائے تو بدزبانی ( گالی گلوچ ) پر اتر آئے ۔ “
تشریح : نفاق بنیادی طور پر قول وعمل کے شدید تضاد کا نام ہے اگر کسی نے اقرارباللسان کیا لیکن اس کے اعمال اس کے برعکس ہیں تو اس کا اقرار غیر حقیقی یا انتہائی کمزورہے ۔ آپؐ نے جن چیزوں کو علامات نفاق قراردیا ہے وہ اعمال شنیعہ ہی ہیں ۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے ۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ کسی پر مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حکم اس کے دعوی اور اعمال کے مطابق لگایا جاسکتا ہے لیکن بعض بنیادی عمل ایسے ہیں کہ صرف زبانی اقراروالے عموماان کا اہتمام نہیں کرسکتے ۔ چاہے وہ بڑے بڑے اعمال جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے بھی ہوں ، جہاں نیکی ایمان میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتی ہے تو وہاں ہر گناہ اور برائی ایمان میں کمی لاتی ہے اور کسی مسلمان میں نفاق کی علامتوں کا پایا جانا ہی قبیح اور بڑا عیب ہے نفاق بنیادی طور پر قول وعمل کے شدید تضاد کا نام ہے اگر کسی نے اقرارباللسان کیا لیکن اس کے اعمال اس کے برعکس ہیں تو اس کا اقرار غیر حقیقی یا انتہائی کمزورہے ۔ آپؐ نے جن چیزوں کو علامات نفاق قراردیا ہے وہ اعمال شنیعہ ہی ہیں ۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے ۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ کسی پر مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا حکم اس کے دعوی اور اعمال کے مطابق لگایا جاسکتا ہے لیکن بعض بنیادی عمل ایسے ہیں کہ صرف زبانی اقراروالے عموماان کا اہتمام نہیں کرسکتے ۔ چاہے وہ بڑے بڑے اعمال جیسے نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے بھی ہوں ، جہاں نیکی ایمان میں اضافے اور ترقی کا باعث بنتی ہے تو وہاں ہر گناہ اور برائی ایمان میں کمی لاتی ہے اور کسی مسلمان میں نفاق کی علامتوں کا پایا جانا ہی قبیح اور بڑا عیب ہے