كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ... زَادَ: >ثُمَّ لِيَقْعُدْ بَعْدُ إِنْ شَاءَ، أَوْ لِيَذْهَبْ لِحَاجَتِهِ<.
کتاب: نماز کے احکام ومسائل
باب: مسجد میں داخل ہونے پر نماز کا بیان
جناب عامر بن عبداللہ بن زبیر بنی زریق کے ایک آدمی سے وہ سیدنا ابوقتادہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں ۔ اس میں یہ اضافہ ہے ” پھر اس کے بعد بیٹھا رہے یا چاہے تو اپنے کام کے لیے چلا جائے ۔ “
تشریح :
تحیۃ المسجد کے حکم میں علماء کا اختلاف رہا ہے۔اصحاب ظواہر اور کچھ اصحاب الحدیث اس کے وجوب کے قائل ہیں۔جب کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم استحباب ہے۔اور اوقات غیر مکروہہ سے خاص ہے۔ہمارے مشائخ کا میلان بھی اس طرف ہے۔جیسے کہ امام نسائی کی تبویب واستدلال سے ظاہر ہے۔
اب الرجفة في الجلوس فيه والخروج منه بغير صلوة حديث 732)
اس ضمن میں وہ حضرت کعب بن مالک کی یہ حدیث لائے ہیں۔
(حتي جئت فلما سلمتت تبسم المغضب ثم قال تعالي فجئت حتي جلست بين يديه )
اور آخر میں حدیث ہے۔(اما هذا فقد صدق فقم حتي يقضي الله فيك فقمت فمضيت )(سنن نسائی حدیث نمبر 732)
اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ انہوں نے تحیۃ المسجد کے نفل نہیں پڑھے تھے۔دوسرے علماء (اذا)جب بھی مسجد داخل ہو کے عموم سے اوقات مکروہہ میں بھی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنے کو مستحب اور بعض واجب قرار دیتے ہیں ۔بہر حال تحیۃ المسجدکا حکم بلاشبہ تاکیدی ہے۔حتیٰ کے آپ نے اثنائے خطبہ جمعہ میں بھی اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔
تحیۃ المسجد کے حکم میں علماء کا اختلاف رہا ہے۔اصحاب ظواہر اور کچھ اصحاب الحدیث اس کے وجوب کے قائل ہیں۔جب کہ جمہور کے نزدیک یہ حکم استحباب ہے۔اور اوقات غیر مکروہہ سے خاص ہے۔ہمارے مشائخ کا میلان بھی اس طرف ہے۔جیسے کہ امام نسائی کی تبویب واستدلال سے ظاہر ہے۔
اب الرجفة في الجلوس فيه والخروج منه بغير صلوة حديث 732)
اس ضمن میں وہ حضرت کعب بن مالک کی یہ حدیث لائے ہیں۔
(حتي جئت فلما سلمتت تبسم المغضب ثم قال تعالي فجئت حتي جلست بين يديه )
اور آخر میں حدیث ہے۔(اما هذا فقد صدق فقم حتي يقضي الله فيك فقمت فمضيت )(سنن نسائی حدیث نمبر 732)
اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ انہوں نے تحیۃ المسجد کے نفل نہیں پڑھے تھے۔دوسرے علماء (اذا)جب بھی مسجد داخل ہو کے عموم سے اوقات مکروہہ میں بھی تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھنے کو مستحب اور بعض واجب قرار دیتے ہیں ۔بہر حال تحیۃ المسجدکا حکم بلاشبہ تاکیدی ہے۔حتیٰ کے آپ نے اثنائے خطبہ جمعہ میں بھی اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔اس لئے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔