Book - حدیث 4667

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ مَا يَدُلُّ عَلَى تَرْكِ الْكَلَامِ فِي الْفِتْنَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ

ترجمہ Book - حدیث 4667

کتاب: سنتوں کا بیان باب: فتنے کے دنوں میں ان باتوں کو عام موضوع بحث نہیں بنانا چاہیے سیدنا ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” مسلمانوں میں افتراق کے وقت ایک فتنہ انگیز جماعت نکلے گی جسے مسلمانوں کا وہ گروہ قتل کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہو گا ۔“
تشریح : 1 : مسلمانوں میں مختلف آرا کے حامل افرا د یا جماعتوں کا وجود ہو سکتا ہے جن میں سے یقینا ایک ہی حق پر ہو گا اور دوسرااس سے بعید ۔ مگر جب تک کوئی واضح صریح باطل فکروعمل سامنے نہ آئے ان کی ضلالت کا حکم نہ لگایا جائے ۔ بلکہ علم وحکمت سے تفہیم ہونی چاہیے اور حتی الامکان ان کی اشاعت اور تشہیر سے خاموشی اختیار کی جائے ،اسی سے وہ فتنہ دن سکے گا ۔ 2 : اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کا بیان ہے ،یہ حدیث نبی ؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ خوارج کا جس وقت ظہور ہوا م،وہ اس حدیث کے عین مطابق ہے ،یہ 32،38 ہجری کا واقعہ ہے جب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کے درمیان لڑائی جاری تھی ۔ اس وقت نہروان سے فرقہ خوارج کا ظہورہوا اورحضرت علی رضی اللہ نے ان سے جنگ کی اور انہیں شکست فاش دی ۔ اسی قسم کی احادیث کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ کو حضرت معاویہ کے مقابلے میں اقرب الی الحق کہا جاتا ہے ۔ 3 : اس میں باہم لڑنے والے دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے ،اس لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ دونوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی بجائے کف لسان (خاموشی ) ضروری ہے ،کیونکہ دونوں ہی مسلمان اورحق پر تھے ،گو ایک احق (زیادہ صحیح ) تھا ۔ 4 : فتنہ انگیز یا دین سے نکل جانے والا گروہ خوارج کا تھا ،نہ کہ حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ کا گروہ تھا ،وہ دونوں تو مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے ۔ 1 : مسلمانوں میں مختلف آرا کے حامل افرا د یا جماعتوں کا وجود ہو سکتا ہے جن میں سے یقینا ایک ہی حق پر ہو گا اور دوسرااس سے بعید ۔ مگر جب تک کوئی واضح صریح باطل فکروعمل سامنے نہ آئے ان کی ضلالت کا حکم نہ لگایا جائے ۔ بلکہ علم وحکمت سے تفہیم ہونی چاہیے اور حتی الامکان ان کی اشاعت اور تشہیر سے خاموشی اختیار کی جائے ،اسی سے وہ فتنہ دن سکے گا ۔ 2 : اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کا بیان ہے ،یہ حدیث نبی ؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ خوارج کا جس وقت ظہور ہوا م،وہ اس حدیث کے عین مطابق ہے ،یہ 32،38 ہجری کا واقعہ ہے جب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کے درمیان لڑائی جاری تھی ۔ اس وقت نہروان سے فرقہ خوارج کا ظہورہوا اورحضرت علی رضی اللہ نے ان سے جنگ کی اور انہیں شکست فاش دی ۔ اسی قسم کی احادیث کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ کو حضرت معاویہ کے مقابلے میں اقرب الی الحق کہا جاتا ہے ۔ 3 : اس میں باہم لڑنے والے دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے ،اس لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ دونوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی بجائے کف لسان (خاموشی ) ضروری ہے ،کیونکہ دونوں ہی مسلمان اورحق پر تھے ،گو ایک احق (زیادہ صحیح ) تھا ۔ 4 : فتنہ انگیز یا دین سے نکل جانے والا گروہ خوارج کا تھا ،نہ کہ حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ کا گروہ تھا ،وہ دونوں تو مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے ۔