Book - حدیث 4659

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِﷺ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ، فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ، فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ، فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ! فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ! مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْضَبُ، فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَيَرْضَى، فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ، وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ، وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً! وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ، فَقَالَ: >أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً، أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي, فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ, أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ, وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ, فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ<. وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ، أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ.ٍ

ترجمہ Book - حدیث 4659

کتاب: سنتوں کا بیان باب: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو سب و شتم کرنا حرام ہے عمرو بن ابوقرہ نے بیان کیا کہ اپنے صحابہ سے کچھ کہتے تھے ، تو کیا آپ اپنے اس انداز سے باز نہیں آ سکتے ۔ کیا آپ لوگوں کے دلوں میں کچھ کی محبت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور کچھ کے متعلق بغض ڈال دینا چاہتے ہیں ؟ اس طرح تو آپ ان لوگوں میں اختلاف و افتراق پیدا کر دیں گے ، حالانکہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا تھا : ” ( اے اللہ ! ) اپنی امت کے جس کسی کو میں نے کبھی کوئی برا بھلا کہا : ہو یا ناراضی کی حالت میں لعنت کی ہو تو میں بھی آدم زاد ہوں ، جس طرح وہ غصے میں آ جاتے ہیں میں بھی آ جاتا ہوں اور مجھے جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ( یا اللہ ! میری ان باتوں کو ) ان کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے ۔ “ ( اے حذیفہ ! ) اللہ کی قسم ! تم باز آ جاؤ یا میں عمر ؓ کو لکھ بھیجوں گا ۔ پھر کچھ لوگوں نے ان سے سفارش کی تو انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دیا اور سیدنا عمر ؓ کو نہ لکھا ۔ اور کفارہ بھی قسم توڑنے سے پہلے دیا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : قسم کا کفارہ ، قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا یا بعد میں ادا کرنا سب جائز ہے ۔
تشریح : کسی بھی شخص کو خواہ وہ ذاتی طور پر کتنا بھی خیر وفلاح کے درجے پر فائز ہو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عوام میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی تقصیرات کی اشاعت کرے کی ان میں سے کچھ کے تعلق محبت اور کچھ کے متعلق بغض پیدا ہوجائیں اور لوگ اس قدسی جماعت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوں اور ان میں تفرقہ پیدا ہوجائے تاہم ایک محدود خاص علمی حلقے میں قابل اعتماد اصحاب علم وفضل کے سامنے ان امور کا تذکرہ بطور افہام و تفہیم جائز ہے۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ ذاتی طور پر کتنا بھی خیر وفلاح کے درجے پر فائز ہو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عوام میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی تقصیرات کی اشاعت کرے کی ان میں سے کچھ کے تعلق محبت اور کچھ کے متعلق بغض پیدا ہوجائیں اور لوگ اس قدسی جماعت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوں اور ان میں تفرقہ پیدا ہوجائے تاہم ایک محدود خاص علمی حلقے میں قابل اعتماد اصحاب علم وفضل کے سامنے ان امور کا تذکرہ بطور افہام و تفہیم جائز ہے۔