Book - حدیث 4655

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَوْرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَأَتَاهُ- يَعْنِي: عُرْوَةَ بْنَ مَسْعُودٍ-، فَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلَّمَا كَلَّمَهُ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ السَّيْفُ، وَعَلَيْهِ الْمِغْفَرُ، فَضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَتِهِ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ.

ترجمہ Book - حدیث 4655

کتاب: سنتوں کا بیان باب: خلفاء کا بیان سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ حدیبیہ کے دنوں میں روانہ ہوئے ، اور حدیث بیان کی ، کہا کہ پھر ( مشرکین کی طرف سے ) عروہ بن مسعود آیا اور نبی کریم ﷺ سے بات کرنے لگا اور اس اثنا میں وہ آپ ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کو بھی ہاتھ لگاتا تھا ۔ جبکہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ نبی کریم ﷺ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے ، ان کے ہاتھ میں تلوار اور سر پر خود تھی ۔ تو انہوں نے اپنی تلوار کے دستے سے عروہ کے ہاتھ کو ٹھوکا دیا اور کہا : آپ کی ڈاڑھی مبارک سے اپنا ہاتھ دور رکھ ۔ عروہ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور پوچھا یہ کون ہے ؟ صحابہ نے کہا : یہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ ہیں ۔ ( ؓ )
تشریح : امام ابو داود کے اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ اوپر کی احادیث میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو سیاسی حمایت کی ہے وہ ان کے شرف صحابیت اور اللہ کے ہاں ان کے مقام کی منافی نہیں ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ دیگر کتنے ہی صحابہ تھےجو اپنی اپنی سوچ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی یا مخالف تھےاور یہ سب ان کے اجتہادات تھے۔اس لیے ہم کسی کو بھی صراحت سے غلط کہنے کے مجاز ہوتو ان کے شرف صحابیت رسول اللہ ﷺ کے لیے ان کی وفا شعار ی اور ان بشارتوں کے پیش نظر جو رسول اللہ ﷺ نے انکے متعلق فرمائی ہیں صرف نظرکرنااور ان کے فعال کی تاویل کرنا واجب ہے۔(رضي الله تعالي عنهم وارضاهم) امام ابو داود کے اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ اوپر کی احادیث میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جو سیاسی حمایت کی ہے وہ ان کے شرف صحابیت اور اللہ کے ہاں ان کے مقام کی منافی نہیں ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ دیگر کتنے ہی صحابہ تھےجو اپنی اپنی سوچ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی یا مخالف تھےاور یہ سب ان کے اجتہادات تھے۔اس لیے ہم کسی کو بھی صراحت سے غلط کہنے کے مجاز ہوتو ان کے شرف صحابیت رسول اللہ ﷺ کے لیے ان کی وفا شعار ی اور ان بشارتوں کے پیش نظر جو رسول اللہ ﷺ نے انکے متعلق فرمائی ہیں صرف نظرکرنااور ان کے فعال کی تاویل کرنا واجب ہے۔(رضي الله تعالي عنهم وارضاهم)