كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ حسن صحيح حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
کتاب: سنتوں کا بیان
باب: خلفاء کا بیان
( رسول اللہ ﷺ کے غلام ) سیدنا سفینہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔
سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر ؓ کے دو سال حضرت عمرؓ کے دس سال اور حضرت عثمان ؓ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی ؓ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
تشریح :
بنوزرقاء سے مراد بنو مروان ہیں زرقاء ان کے نسب میں آتی ہے جس کی یہ اولاد ہیں۔
2۔پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ایک محاورہ ہے جو اپنے مفاد کے لیے من گھڑت بات پھیلانے والون کے بارے میں بولا جاتا ہے،
3۔مذکورہ بالا مدت خلفاء اربعہ حضرت ابوبکرٌحضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو محیط ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دوسال تین مہینے اور دس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال چھ مہینے اور آٹھ دن اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گیارہ سال گیارہ مہینے اور نو دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار سال نو مہینے اور سات دن اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تقریباً سات مہینے ہے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےخود ہی خلافت سے دست برداری اختیار کرکے خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی اور یوں وہ اختلافات ختم ہوگئے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد قصاص عثمان کے مسئلے پر شروع ہوئے تھے جو بڑھتے بڑھتےباہمی جنگ اور خون یزی تک پہنچ گئے تھے۔اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ 20 سال تک خلیفہ رہے انہوں نے اندرونی شورش اور بد امنی کو بھی ختم کیااور بیرونی طور پر ان جہادی سرگرمیوںکا بھی پھر سے آغاز کیا جن کا سلسلہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا۔اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ دور خلافت بھی اسلامی تاریخ کا ایک عہد زریں ہے۔حدیث میں جو خلافت نبوت کا دور جو صرف 30 سال بتلایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنے عرسے تک خلافت میں دنیوی اغراض ومقاصد اور شاہانہ شان و شوکت شامل نہیں ہوگی لیکن اس کے بعد ان چیزوں کی کچھ آمیزش ہو جائے گی۔یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے خلافت یا اسلامی نظام حکومت ہی کا خاتمہ ہوجائے گااو صرف ملوکیت یا مطلق العنایت ہی باقی رہ جائے گی۔ایسا الحمد للہ نہیں ہوا بلکہ خلافت کچھ جزوی خرابیوں کے ساتھ باقی رہی۔اور یہ تسلسل کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ صدیوں تک قائم رہا تا آنکہ 1924میں ترکی کے مصطفی کمال پاشا نے ادارہ خلافت کا خاتمہ کردیا۔بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر یہ دعوی کردیتے ہیںکہ اسلام کا سیاسی نظام صرف 30 سال چلااور پھر ختم ہوگیا۔یہ دعوی نہایت سطحی بھی ہےاور حقائق وواقعات کے خلاف بھی۔اسلام کے سیاسی نظام یعنی ادارہ کلافت نے صدیوں تک دنیا میں حکمرانی کی ہےاور اس کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا سکہ منوایا ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:راقم(حافظ صلاح الدین یوسف کی کتابؒ) خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت ) اس میں اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کے خدوخال بھی واضح کیے گیے ہیںاور مسلمان خلفاء وسلاطین کی بابت غلط پروپیگنڈے کی دبیز تہوں کو بھی صاف کیا گیاہے۔
بنوزرقاء سے مراد بنو مروان ہیں زرقاء ان کے نسب میں آتی ہے جس کی یہ اولاد ہیں۔
2۔پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ایک محاورہ ہے جو اپنے مفاد کے لیے من گھڑت بات پھیلانے والون کے بارے میں بولا جاتا ہے،
3۔مذکورہ بالا مدت خلفاء اربعہ حضرت ابوبکرٌحضرت عمر حضرت عثمان حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کو محیط ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دوسال تین مہینے اور دس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال چھ مہینے اور آٹھ دن اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گیارہ سال گیارہ مہینے اور نو دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار سال نو مہینے اور سات دن اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تقریباً سات مہینے ہے۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےخود ہی خلافت سے دست برداری اختیار کرکے خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی اور یوں وہ اختلافات ختم ہوگئے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد قصاص عثمان کے مسئلے پر شروع ہوئے تھے جو بڑھتے بڑھتےباہمی جنگ اور خون یزی تک پہنچ گئے تھے۔اس کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ 20 سال تک خلیفہ رہے انہوں نے اندرونی شورش اور بد امنی کو بھی ختم کیااور بیرونی طور پر ان جہادی سرگرمیوںکا بھی پھر سے آغاز کیا جن کا سلسلہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا۔اس اعتبار سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ دور خلافت بھی اسلامی تاریخ کا ایک عہد زریں ہے۔حدیث میں جو خلافت نبوت کا دور جو صرف 30 سال بتلایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنے عرسے تک خلافت میں دنیوی اغراض ومقاصد اور شاہانہ شان و شوکت شامل نہیں ہوگی لیکن اس کے بعد ان چیزوں کی کچھ آمیزش ہو جائے گی۔یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے خلافت یا اسلامی نظام حکومت ہی کا خاتمہ ہوجائے گااو صرف ملوکیت یا مطلق العنایت ہی باقی رہ جائے گی۔ایسا الحمد للہ نہیں ہوا بلکہ خلافت کچھ جزوی خرابیوں کے ساتھ باقی رہی۔اور یہ تسلسل کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ صدیوں تک قائم رہا تا آنکہ 1924میں ترکی کے مصطفی کمال پاشا نے ادارہ خلافت کا خاتمہ کردیا۔بعض لوگ اس حدیث کی بنیاد پر یہ دعوی کردیتے ہیںکہ اسلام کا سیاسی نظام صرف 30 سال چلااور پھر ختم ہوگیا۔یہ دعوی نہایت سطحی بھی ہےاور حقائق وواقعات کے خلاف بھی۔اسلام کے سیاسی نظام یعنی ادارہ کلافت نے صدیوں تک دنیا میں حکمرانی کی ہےاور اس کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کا سکہ منوایا ہے ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:راقم(حافظ صلاح الدین یوسف کی کتابؒ) خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت ) اس میں اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کے خدوخال بھی واضح کیے گیے ہیںاور مسلمان خلفاء وسلاطین کی بابت غلط پروپیگنڈے کی دبیز تہوں کو بھی صاف کیا گیاہے۔