Book - حدیث 4632

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ, قَالَ مُحَمَّدٌ: كَتَبْتُهُ مِنْ كِتَابِهِ, قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ, أَنَّ رَجُلًا أَتَى إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْهَا السَّمْنُ وَالْعَسَلُ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ بِأَيْدِيهِمْ, فَالْمُسْتَكْثِرُ، وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ، ثُمَّ وُصِلَ فَعَلَا بِهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأُمِّي لَتَدَعَنِّي فَلَأُعَبِّرَنَّهَا! فَقَالَ: >اعْبُرْهَا<، قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ, فَهُوَ الْقُرْآنُ لِينُهُ وَحَلَاوَتُهُ، وَأَمَّا الْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ، فَهُوَ الْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ مِنْهُ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ, فَهُوَ الْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ، فَيُعْلِيكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ بَعْدَكَ رَجُلٌ فَيَعْلُو، بِهِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ, أَيْ رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي: أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ: >أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا<، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا تُقْسِمْ<.

ترجمہ Book - حدیث 4632

کتاب: سنتوں کا بیان باب: خلفاء کا بیان سیدنا ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہا کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا : میں نے آج رات خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بادل سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے ۔ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنی ہتھیلیاں پھیلائے ہوئے تھے ‘ تو کچھ نے ان سے خوب خوب لیا اور کچھ نے کم لیا ۔ اور میں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ، اے اللہ کے رسول ! آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس کو پکڑا ہے اور اوپر چڑھ گئے ہیں ۔ پھر ایک دوسرے آدمی نے اسے پکڑا وہ بھی اوپر چڑھ گیا ۔ پھر ایک اور آدمی نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گیا ۔ پھر ایک اور آدمی نے اسے پکڑا تو وہ ٹوٹ گئی ۔ پھر جوڑ دی گئی تو وہ اوپر چڑھ گیا ۔ پس سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی تعبیر عرض کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کی تعبیر بیان کرو ۔ “ تو انہوں نے کہا : وہ بادل ‘ اسلام کا سایہ ہے اور اس سے ٹپکنے والا گھی اور شہد ، قرآن کی ملائمت اور شیرینی ہے ۔ زیادہ یا کم لینے والے ، تو وہ وہی ہیں جو قرآن سے اپنا حصہ زیادہ لے رہے ہیں یا کم ۔ اور آسمان سے لٹکنے والی رسی ، وہی حق ہے جس پر آپ ﷺ ہیں ۔ آپ نے اسے پکڑا ہے تو اللہ آپ کو بلند فرمائے گا ۔ پھر آپ کے بعد ایک آدمی پکڑے گا اور اس کے ذریعے سے اوپر چڑھ جائے گا ۔ اس کے بعد دوسرا آدمی پکڑے گا تو وہ بھی اوپر چڑھ جائے گا ۔ پھر تیسرا آدمی پکڑے گا تو وہ ٹوٹ جائے گی ، پھر اسے اس کی خاطر جوڑ دیا جائے گا ۔ تو پھر وہ اوپر چڑھ جائے گا ۔ اے اللہ کے رسول ! مجھے ضرور بتائیں کہ میں نے درست کہا : ہے یا غلط ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” تم نے کچھ درست کہا ہے اور کچھ میں غلطی کی ہے ۔ “ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں مجھے ضرور بتائیں کہ میں نے کیا غلطی کی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” قسم مت دو ۔ “
تشریح : 1۔سچے اور عمدہ خواب مومن کے لیے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیے گئے ہیں اور ان کے ذریعے سے بندے کو بعض امور کی اطلاع یا بعض امور سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ 2۔مذکورہ بالا خواب میں خلا فت نبوت کی طرف اشارہ تھا۔جسے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بجا طور پر سمجھ گئے تھے۔اس میں غلطی کیا تھی؟تو اس کے در پے ہونا قطعاً روا نہیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت نہیں فرمائی تو کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہےکہ ظن و تخمیم سے کوئی بات کہے۔ 3۔کسی کو لفظ قسم کے ساتھ قسم دینے سے اس کی تعمیل واجب نہیں ہوجاتی۔ 4۔کسی تلمیذ یا ادنی کو جائز ہے کہ اپنے شیخ یا بڑے کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت سے کسی سوال کا جواب دے یا اس پر بحث کرے ۔یہ خلاف ادب شمار نہیں ہوگا۔بلا اجازت بولنا البتہ بے ادبی ہوگی۔ 1۔سچے اور عمدہ خواب مومن کے لیے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیے گئے ہیں اور ان کے ذریعے سے بندے کو بعض امور کی اطلاع یا بعض امور سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ 2۔مذکورہ بالا خواب میں خلا فت نبوت کی طرف اشارہ تھا۔جسے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بجا طور پر سمجھ گئے تھے۔اس میں غلطی کیا تھی؟تو اس کے در پے ہونا قطعاً روا نہیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت نہیں فرمائی تو کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہےکہ ظن و تخمیم سے کوئی بات کہے۔ 3۔کسی کو لفظ قسم کے ساتھ قسم دینے سے اس کی تعمیل واجب نہیں ہوجاتی۔ 4۔کسی تلمیذ یا ادنی کو جائز ہے کہ اپنے شیخ یا بڑے کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت سے کسی سوال کا جواب دے یا اس پر بحث کرے ۔یہ خلاف ادب شمار نہیں ہوگا۔بلا اجازت بولنا البتہ بے ادبی ہوگی۔