Book - حدیث 4610

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ مَن دَعَا إِلَى السُّنَّةِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا: مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ

ترجمہ Book - حدیث 4610

کتاب: سنتوں کا بیان باب: اتباع سنت کی دعوت دینے ( کی اہمیت ) کا بیان جناب عامر بن سعد اپنے والد ( سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” مسلمانوں میں جرم کے اعتبار سے سب سے بڑا ( مجرم ) وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی بات کے بارے میں سوال کیا جو پہلے حرام نہ تھی ، مگر اس کے سوال کرنے کے باعث حرام کر دی گئی ۔ “
تشریح : دین کے احکام جس طرح ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح ان پر عمل کرنا چاہیے۔اطاعت کے لیے یہ کافی ہے۔خود ان احکام کے اندر مختلف پہلوؤں کو نکال کر سوال کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔بغیر ضرورتبال کی کھال اتانے سے اپنے اوردوسروں کے لیے سخت دشواریاں پیدا ہوتی ہیں ان سے احترازکرتے ہوئے صدق نیت سے آیات واحادیث کے سہل اور عام مفہوم پر عمل کرنا کافی ہے۔قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ملا۔انہوں نے کیسی کس رنگ کی کس طرح کی گائے کے حوالے سے سوال کرنے شروع کردیے۔ہر سوال سے گائے کی تخصیص ہوتی گئی اور اس طرح کی گائے ذبح کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔اللہ تعالی نے اس طریقے کار کو یہود کے غلط طریق پر محمول فرمایا۔حکم ملتے ہی اگر وہ حسن نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کردیتے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔بہت زیادہ سوالات کرنا کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا بالخصوص ایسے سوالات جن کا عملی زندگی سے واسطہ نہ ہو ۔یا محض فرضی مسائل ہوں۔اب اگرچہ حلت وحرمت کا دورتو نہیں مگر علماء سے بھی لازمی اور ضروری سوالات ہی کرنے چاہییں جن کا تعلق حقیقت واقعہ سے ہو۔فرضی صورتیں سوچ سوچ کر ان کے جواب مانگنا یا تلاش کرنا غیر صحت مند رویہ ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے دین کے احکام جس طرح ایک عام آدمی کی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح ان پر عمل کرنا چاہیے۔اطاعت کے لیے یہ کافی ہے۔خود ان احکام کے اندر مختلف پہلوؤں کو نکال کر سوال کرنے میں کئی قباحتیں ہیں۔بغیر ضرورتبال کی کھال اتانے سے اپنے اوردوسروں کے لیے سخت دشواریاں پیدا ہوتی ہیں ان سے احترازکرتے ہوئے صدق نیت سے آیات واحادیث کے سہل اور عام مفہوم پر عمل کرنا کافی ہے۔قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم ملا۔انہوں نے کیسی کس رنگ کی کس طرح کی گائے کے حوالے سے سوال کرنے شروع کردیے۔ہر سوال سے گائے کی تخصیص ہوتی گئی اور اس طرح کی گائے ذبح کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔اللہ تعالی نے اس طریقے کار کو یہود کے غلط طریق پر محمول فرمایا۔حکم ملتے ہی اگر وہ حسن نیت سے کوئی ایک گائے ذبح کردیتے تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔بہت زیادہ سوالات کرنا کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا بالخصوص ایسے سوالات جن کا عملی زندگی سے واسطہ نہ ہو ۔یا محض فرضی مسائل ہوں۔اب اگرچہ حلت وحرمت کا دورتو نہیں مگر علماء سے بھی لازمی اور ضروری سوالات ہی کرنے چاہییں جن کا تعلق حقیقت واقعہ سے ہو۔فرضی صورتیں سوچ سوچ کر ان کے جواب مانگنا یا تلاش کرنا غیر صحت مند رویہ ہے جس سے اسلام نے منع کیا ہے