Book - حدیث 4605

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: >لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي, مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ، أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لَا نَدْرِي! مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ!<.

ترجمہ Book - حدیث 4605

کتاب: سنتوں کا بیان باب: سنت کا اتباع واجب ہے جناب عبیداللہ اپنے والد سیدنا ابورافع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ہرگز ایسا نہ ہو کہ میں تم میں سے کسی کو پاؤں کہ وہ اپنے تخت یا دیوان پر بیٹھا ہو اور اس کے پاس میرے احکام میں سے کوئی حکم پہنچے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا اس سے منع کیا ہو تو وہ کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے ، ہم تو کتاب اللہ میں جو پائیں گے ، اسی پر عمل کریں گے ۔“
تشریح : 1۔مذکورہ دونوں روایتوں میں اریکہ کا لفظ آیا ہے۔اس سے مراد لکڑی کا بنا ہوا تخت یادیوان ہے جس پر لوگ گھروں میں بیٹھتے تھے یا جائے نماز کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ 2۔رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو قرآن کریم کر ساتھ اسی جیسی دی گئی چیز حدیث اور سنت ہے۔قرآن کو وحی جلی اور وحی متلو کہا جاتاہے۔یعنی جس کی تلاوت ہوتی ہے۔جبکہ حدیث اور سنت کو وحی خفی اور وحی غیر متلو کہتے ہیں ۔یعنی جس کی تلاوت نہیں ہوتی لیکن وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔قرآن کریم بسبب تلاوت عامہ وکثیر ہ اول دن سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔جبکہ احادیث کے اثبات کے لیے اسانید (خبر دینےوالوں کے سلسلے )کی صحت اولین شرط ہے۔علمائے راسخین اور ماہرین فن حدیث کی تنقیح وتحقیق کے بعد جن احادیث کی نسبت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف صحیح ثابت ہوا ن کا اتباع اسی طرح واجب ہے جیسے کہ قرآن مجید کا اور قرآن مجید کی متعدد آیات اس امر کی تصریح کرتی ہیں اور قول فیصل ہیں۔جیسے ارشاد الہی:( وانزلنا اليك الذكر لتبين للناس مانزل اليهم) ( النحل:٤٤)ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں کوان کی طرف نازل کردہ کی خوب وضاحت کردیں۔ اور بلاشبہ آپ صلى الله عليه وسلم کی وضاحت قول وفعل اور توثیق سے ہوئی ہے اور صحابہ کرام نے اس کو خوب محفوظ رکھا اور آگے نقل کیا ہے ۔سورۃالنساء میں ہے:( من يطع الرسول فقد اطاع الله ومن تولي فما ارسلنك عليهم حفيظاً) ( النساء;٨-) جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کیاور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجاہے۔ سورۃ النور میں ہے: قل اطيعو الله واطيعوالرسول فان تولوا فانما عليه ما حمل و عليكم ما حملتم وان تطيعوه تهتدوا وما علي الرسول الله الا البلغ المبين) (النور;٥٤) کہہ دیجیے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم اس سے منہ پھیرلوگے تو رسول پر وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا ہے اور تم سے صرف اس کی جوابدہی ہو گی جو تمھارے ذمے ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے تو ہدایت پر رہوگے اور رسول کے ذمے صرف واضح طور پر پہنچادینا ہے علاوہ ازیں فرمایا: (فليحذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنه او يصيبهم عذاب اليم) ( النور :٦٣) ان لوگوں کو جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ڈرنا چاہیے کہ انہیں کوئی فتنہ نہ آلے یا کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ سورۃ الحشر میں فرمایا:(وما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا) (الحشر:7) اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے روک جاؤ۔ علاوہ ازیں اور بھی متعدد آیات جحیت حدیث کی واضح دلیل ہیں ۔ 3۔ایسے تمام گروہ فرقے یا افراد جو محض قرآن کی اتباع کا دعوی کرتے ہیں لیکن صحیح احادیث سے اعراض کرتے ہیں مندرجہ بالا حدیث اور آیات میں ان کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ 4۔یہ احادیث نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی صداقت وحقانیت کی بہت بڑی دلیل ہیں کہ جو بھی غیب کی خبریں آپ نے دی ہیں وہ بالکل سچ ثابت ہورہی ہیں ۔پاکستان کے صوبے پنجاب میں ظاہر ہونے والا فرقہ اہل قرآن اور ان کا سردار عبد اللہ چکڑالوی بالخصوص اس حدیث کا مصداق ثابت ہوا ۔اس نے اپنے بیٹے مولوی محمد ابراہیم کو اپنے مال سے بغیر کسی قصور کے محروم کردیا ۔وہ آئے اور والد کے سامنے کھڑے ہوکر بات کی اور یہ حدیث سنائی : کوئی اپنے ایک بیتے کو محروم کرے گا قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے جسم کا ایک مرا ہوا ہوگا ۔حدیث سن کر باپ نے کہا ہم نہیں جانتے ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی پر عمل کریں گے۔مولوی ابراہیم نے نظر اٹھاکر دیکھا تو سامنے عبداللہ چکڑالوی لکڑی کے دیوان پر سہارا لے کر بیٹھے ہوئے یہ فقرہ کہہ رہا تھا۔ان کے سامنے یہ منظر واضح طور پر آگیا جو حدیث میں دکھایا گیا ہے۔وہ حیرت ودہشت میں ڈوب گئے اور آپ تو وہی ہیں آپ تو وہی ہیں کہتے ہیں الٹے پاؤں واپس ہو گئےاور باپ کے شہر سے بہت دور ایک گاؤں میں جابسے اور زندگی بھر اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیاکہ ایسے باپ کی دولت سے مجھے کوئی حصہ نہیں چاہیے جو انکار حدیث کے سرغنہ کے طور پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا۔ 5۔صحیح احادیث حتمی طور پر واجب العمل ہیں۔یہ ایک حیلہ ہے کہ احادیث صحیحہ کو پہلے قرآن پر پیش کیا جائےاور پھر عمل کا فیصلہ کیا جائے۔احادیث قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں بلکہ خود قرآن کی رو سے قرآن کی وضاحت اور تفسیر ہیں۔ان کی روشنی میں قرآن کا مفہوم متعین ہوتا ہے کوئی صحیح قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں بلکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ہیں،سورۃ القیامۃ میں ارشاد الہی ہے: (فاذا قرانه فاتبع قرانه ّثم ان علينا بيانه) القيامه :١٩ ١٨) جب ہم اس کو پڑھ لیں تب آپ اس کی قرات کریں پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔ 1۔مذکورہ دونوں روایتوں میں اریکہ کا لفظ آیا ہے۔اس سے مراد لکڑی کا بنا ہوا تخت یادیوان ہے جس پر لوگ گھروں میں بیٹھتے تھے یا جائے نماز کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ 2۔رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو قرآن کریم کر ساتھ اسی جیسی دی گئی چیز حدیث اور سنت ہے۔قرآن کو وحی جلی اور وحی متلو کہا جاتاہے۔یعنی جس کی تلاوت ہوتی ہے۔جبکہ حدیث اور سنت کو وحی خفی اور وحی غیر متلو کہتے ہیں ۔یعنی جس کی تلاوت نہیں ہوتی لیکن وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔قرآن کریم بسبب تلاوت عامہ وکثیر ہ اول دن سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ۔جبکہ احادیث کے اثبات کے لیے اسانید (خبر دینےوالوں کے سلسلے )کی صحت اولین شرط ہے۔علمائے راسخین اور ماہرین فن حدیث کی تنقیح وتحقیق کے بعد جن احادیث کی نسبت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف صحیح ثابت ہوا ن کا اتباع اسی طرح واجب ہے جیسے کہ قرآن مجید کا اور قرآن مجید کی متعدد آیات اس امر کی تصریح کرتی ہیں اور قول فیصل ہیں۔جیسے ارشاد الہی:( وانزلنا اليك الذكر لتبين للناس مانزل اليهم) ( النحل:٤٤)ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں کوان کی طرف نازل کردہ کی خوب وضاحت کردیں۔ اور بلاشبہ آپ صلى الله عليه وسلم کی وضاحت قول وفعل اور توثیق سے ہوئی ہے اور صحابہ کرام نے اس کو خوب محفوظ رکھا اور آگے نقل کیا ہے ۔سورۃالنساء میں ہے:( من يطع الرسول فقد اطاع الله ومن تولي فما ارسلنك عليهم حفيظاً) ( النساء;٨-) جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کیاور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجاہے۔ سورۃ النور میں ہے: قل اطيعو الله واطيعوالرسول فان تولوا فانما عليه ما حمل و عليكم ما حملتم وان تطيعوه تهتدوا وما علي الرسول الله الا البلغ المبين) (النور;٥٤) کہہ دیجیے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم اس سے منہ پھیرلوگے تو رسول پر وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا ہے اور تم سے صرف اس کی جوابدہی ہو گی جو تمھارے ذمے ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے تو ہدایت پر رہوگے اور رسول کے ذمے صرف واضح طور پر پہنچادینا ہے علاوہ ازیں فرمایا: (فليحذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنه او يصيبهم عذاب اليم) ( النور :٦٣) ان لوگوں کو جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ڈرنا چاہیے کہ انہیں کوئی فتنہ نہ آلے یا کوئی دردناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ سورۃ الحشر میں فرمایا:(وما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا) (الحشر:7) اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جو کچھ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے روک جاؤ۔ علاوہ ازیں اور بھی متعدد آیات جحیت حدیث کی واضح دلیل ہیں ۔ 3۔ایسے تمام گروہ فرقے یا افراد جو محض قرآن کی اتباع کا دعوی کرتے ہیں لیکن صحیح احادیث سے اعراض کرتے ہیں مندرجہ بالا حدیث اور آیات میں ان کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔ 4۔یہ احادیث نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی صداقت وحقانیت کی بہت بڑی دلیل ہیں کہ جو بھی غیب کی خبریں آپ نے دی ہیں وہ بالکل سچ ثابت ہورہی ہیں ۔پاکستان کے صوبے پنجاب میں ظاہر ہونے والا فرقہ اہل قرآن اور ان کا سردار عبد اللہ چکڑالوی بالخصوص اس حدیث کا مصداق ثابت ہوا ۔اس نے اپنے بیٹے مولوی محمد ابراہیم کو اپنے مال سے بغیر کسی قصور کے محروم کردیا ۔وہ آئے اور والد کے سامنے کھڑے ہوکر بات کی اور یہ حدیث سنائی : کوئی اپنے ایک بیتے کو محروم کرے گا قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے جسم کا ایک مرا ہوا ہوگا ۔حدیث سن کر باپ نے کہا ہم نہیں جانتے ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی پر عمل کریں گے۔مولوی ابراہیم نے نظر اٹھاکر دیکھا تو سامنے عبداللہ چکڑالوی لکڑی کے دیوان پر سہارا لے کر بیٹھے ہوئے یہ فقرہ کہہ رہا تھا۔ان کے سامنے یہ منظر واضح طور پر آگیا جو حدیث میں دکھایا گیا ہے۔وہ حیرت ودہشت میں ڈوب گئے اور آپ تو وہی ہیں آپ تو وہی ہیں کہتے ہیں الٹے پاؤں واپس ہو گئےاور باپ کے شہر سے بہت دور ایک گاؤں میں جابسے اور زندگی بھر اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کیاکہ ایسے باپ کی دولت سے مجھے کوئی حصہ نہیں چاہیے جو انکار حدیث کے سرغنہ کے طور پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا۔ 5۔صحیح احادیث حتمی طور پر واجب العمل ہیں۔یہ ایک حیلہ ہے کہ احادیث صحیحہ کو پہلے قرآن پر پیش کیا جائےاور پھر عمل کا فیصلہ کیا جائے۔احادیث قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں بلکہ خود قرآن کی رو سے قرآن کی وضاحت اور تفسیر ہیں۔ان کی روشنی میں قرآن کا مفہوم متعین ہوتا ہے کوئی صحیح قرآن سے ٹکراتی ہی نہیں بلکہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ہیں،سورۃ القیامۃ میں ارشاد الہی ہے: (فاذا قرانه فاتبع قرانه ّثم ان علينا بيانه) القيامه :١٩ ١٨) جب ہم اس کو پڑھ لیں تب آپ اس کی قرات کریں پھر اس کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔