Book - حدیث 4600

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ مُجَانَبَةِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَبُغْضِهِمْ صحیح حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ وَذَكَرَ ابْنُ السَّرْحِ قِصَّةَ تَخَلُّفِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةَ حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ ثُمَّ سَاقَ خَبَرَ تَنْزِيلِ تَوْبَتِهِ

ترجمہ Book - حدیث 4600

کتاب: سنتوں کا بیان باب: اہل بدعت سے دور رہنے اور ان سے بغض رکھنے کا بیان جناب عبداللہ اپنے والد سیدنا کعب بن مالک ؓ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد ہوا کرتے تھے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ( اپنے والد ) سیدنا کعب بن مالک ؓ سے سنا اور ابن سرح نے ان کے غزوۃ تبوک میں نبی کریم ﷺ سے پیچھے رہ جانے کا قصہ بیان کیا ، کہا کہ رسول ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے بات چیت سے منع فر دیا ۔ حتیٰ کہ جب یہ صورت حال مجھ پر بہت طویل ( اور گراں ) ہو گئی تو میں نے ابوقتادہ کے باغ کی دیوار چڑھ کر اس سے بات کی ، وہ میرے چچا کا بیٹا تھا ، میں نے سلام کیا تو اللہ کی قسم ! اس نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ پھر ( ابن سرح نے ) ان کی توبہ نازل ہونے کی خبر بیان کی ۔
تشریح : شخصی احوال میں اپنے کسی مسلمان بھائی سے ناراض ہوجائے تو تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑ دینا جائز نہیں۔لیکن اگر دینی اور شرعی سبب ہو تو یہ مقاطعہ طویل کیا جاسکتا ہے۔بالخصوص اہل بدعت سے دینی حق کی بناء پر دائمی مقاطعہ (قطع تعلقی) مطلوب ہے۔ 2۔حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع اور ہلالبن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کاواقعہ معروف ہے۔تفسیروسیرت اور احادیث کی کتب میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔ان حضرات کی توبہ پچاسدن کے بعد قبول ہوئی تھی۔اس دوران میں تادیب وتنبیہ کے لیے مسلمانوں کو ان سے بعد چیت سے منع کردیاگیا تھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے شخصی احوال میں اپنے کسی مسلمان بھائی سے ناراض ہوجائے تو تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑ دینا جائز نہیں۔لیکن اگر دینی اور شرعی سبب ہو تو یہ مقاطعہ طویل کیا جاسکتا ہے۔بالخصوص اہل بدعت سے دینی حق کی بناء پر دائمی مقاطعہ (قطع تعلقی) مطلوب ہے۔ 2۔حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع اور ہلالبن امیہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کاواقعہ معروف ہے۔تفسیروسیرت اور احادیث کی کتب میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔ان حضرات کی توبہ پچاسدن کے بعد قبول ہوئی تھی۔اس دوران میں تادیب وتنبیہ کے لیے مسلمانوں کو ان سے بعد چیت سے منع کردیاگیا تھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے