Book - حدیث 4598

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ النَّهْيِ عَنْ الْجِدَالِ وَاتِّبَاعِ الْمُتَشَابِهِ مِنْ الْقُرْآنِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّسْتُرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ إِلَى أُولُو الْأَلْبَابِ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّى اللَّهُ فَاحْذَرُوهُمْ

ترجمہ Book - حدیث 4598

کتاب: سنتوں کا بیان باب: آپس میں جھگڑنا یا قرآن کریم کے متشابہات کے پیچھے پڑنا منع ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ رسول ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات *** إلى *** ‏**أولو الألباب» ” ( اللہ ) وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی ، جس میں بعض آیتیں محکم ( واضح ) ہیں جو اس کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری آیتیں متشابہات ( غیر واضح ) ہیں ، تو جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان میں سے انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ( غیر واضح ) ہیں ، ان کا مقصد محض فتنے اور تاویل کی تلاش ہوتا ہے ، حالانکہ اللہ کے سوا کوئی بھی ان کی تاویل نہیں جانتا ، اور جو لوگ پختہ علم والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان ( متشابہات ) پر ایمان ہے ، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ پکڑتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔ ” سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑتے ہوں تو یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے «فاحذروهم» ” ان سے ڈرتے اور بچتے رہو ۔ “
تشریح : 1۔قرآنی آیات کے محکم اور متشابہ ہونے کے کئی معانی ہیں۔مثلاًوہ آیات جو دوسری ایات کے لیے ناسخ ہیں۔ یا جن میں حلال وحرام کابیان آیا ہے۔یاوہ آیات جن کے معانی واضح اور بندے ان سے آگاہ ہیں ۔یا جن کی کوئی تاویل نہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور متشابہ سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ ہوچکی ہیں مگر تلاوت بھی ہورہی ہے ۔یا حق وصدق میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں انہیں متشابہ کہا گیا ہے۔یا ایسی آیات جن کے معانی ومفاہیم سے صرف اللہ عزوجل ہی آگاہ ہے۔یاجن کے مفاہیم کئی پہلو رکھتے ہیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔ 2۔جدال (لڑائی کرنا)بظاہرکوئی قابل تعریف نہیں سمجھاجاتا مگر اظہار حق اور ابطال باطل کے لیے ازحد ضروری ہے اور قابل تعریف ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کے لیے علم وحکمت کو شرط قرار دیا ہے۔ارشاد الہی ہے: (وجادلهم بالتي هي احسن) النحل:١٢٥) محض ریاو سمعہ (شہرت )اور لوگوں کی توجہات حاصل کرنے کی کوشش میں یا باطل کی تائید میں جدال کرنا حرام ہے۔ 3۔اہل اہواء (اہل بدعت) اور متشابہات کے درپے ہونےوالوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ انہیں تقویت وشہرت نہ ملے اور کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کردیں البتہ راسخ علماء کا فریضہ ہے کہ حق کا اظہار وبیان کریں اور عوام کو باطل سے متنبہ اور آگاہ کرتے رہیں۔ 4۔اور ایسے لوگ مختلف ناموں سے ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہے ہیں۔ 1۔قرآنی آیات کے محکم اور متشابہ ہونے کے کئی معانی ہیں۔مثلاًوہ آیات جو دوسری ایات کے لیے ناسخ ہیں۔ یا جن میں حلال وحرام کابیان آیا ہے۔یاوہ آیات جن کے معانی واضح اور بندے ان سے آگاہ ہیں ۔یا جن کی کوئی تاویل نہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور متشابہ سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ ہوچکی ہیں مگر تلاوت بھی ہورہی ہے ۔یا حق وصدق میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں انہیں متشابہ کہا گیا ہے۔یا ایسی آیات جن کے معانی ومفاہیم سے صرف اللہ عزوجل ہی آگاہ ہے۔یاجن کے مفاہیم کئی پہلو رکھتے ہیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔ 2۔جدال (لڑائی کرنا)بظاہرکوئی قابل تعریف نہیں سمجھاجاتا مگر اظہار حق اور ابطال باطل کے لیے ازحد ضروری ہے اور قابل تعریف ہے،قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کے لیے علم وحکمت کو شرط قرار دیا ہے۔ارشاد الہی ہے: (وجادلهم بالتي هي احسن) النحل:١٢٥) محض ریاو سمعہ (شہرت )اور لوگوں کی توجہات حاصل کرنے کی کوشش میں یا باطل کی تائید میں جدال کرنا حرام ہے۔ 3۔اہل اہواء (اہل بدعت) اور متشابہات کے درپے ہونےوالوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ انہیں تقویت وشہرت نہ ملے اور کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کردیں البتہ راسخ علماء کا فریضہ ہے کہ حق کا اظہار وبیان کریں اور عوام کو باطل سے متنبہ اور آگاہ کرتے رہیں۔ 4۔اور ایسے لوگ مختلف ناموں سے ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہے ہیں۔