Book - حدیث 4564

كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ دِيَاتِ الْأَعْضَاءِ حسن قَالَ أَبُو دَاوُد وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ شَيْبَانَ وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ فَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنْ الْوَرِقِ وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ وَعَدْلُهَا مِنْ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَيْ شَاةٍ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ قَالَ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً وَإِذَا جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنْ الْإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنْ الْإِبِلِ وَثُلُثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْوَرِقِ أَوْ الْبَقَرِ أَوْ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ وَفِي الْأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنْ الْإِبِلِ وَفِي الْأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنْ الْإِبِلِ وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لَا يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَيْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا قَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو دَاوُد مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنْ الْقَتْلِ

ترجمہ Book - حدیث 4564

کتاب: دیتوں کا بیان باب: اعضاء کی دیت کا بیان جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قتل خطا میں دیہات والوں پر اونٹوں کی قیمت کے اعتبار سے دیت لاگو کرتے تھے ، چار سو دینار یا اس کے مساوی چاندی ۔ جب اونٹ مہنگے ہو جاتے تو آپ دیت کی قیمت بڑھا دیتے اور جب سستے ہو جاتے تو دیت کی قیمت کم کر دیتے ۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک یا اس کے برابر آٹھ ہزار درہم رہی ۔ رسول اللہ ﷺ نے گائے والوں پر دو سو گائیں لاگو کیں اور جس کی دیت میں بکریاں آتی تھیں تو ان پر دو ہزار بکریاں مقرر کیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” دیت مقتول کے وارثوں میں قرابت کے اعتبار سے ورثے میں تقسیم ہو گی اور جو باقی بچ رہے وہ عصبات کے لیے ہے ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے ناک کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ جب پوری طرح کاٹ دی گئی ہو ، اس میں پوری دیت ہے اور جب اس کا سرا ( بانسہ ) کاٹا گیا ہو تو اس میں نصف دیت پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی یا ایک سو گائے یا ایک ہزار بکری ہے ۔ اور ایک ہاتھ میں ، جب وہ کاٹ دیا گیا ہو ، تو اس میں آدھی دیت ہے ۔ اور ایک پاؤں میں آدھی دیت ہے ۔ کھوپڑی کا زخم جو دماغ تک پہنچے اس میں تہائی دیت ہے ، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت سونا یا چاندی یا گائیں یا بکریاں ۔ اور جو زخم پیٹ میں لگے تو اس میں بھی اسی طرح سے ہے ۔ ( تہائی دیت ) اور انگلیوں میں ، ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں ۔ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت ( اگر کوئی جرم کرے تو اس ) کی دیت اس کے عصبہ کے ذمے ہے یعنی جو اس حصہ کے وارث بنتے ہیں جو مقررہ حصوں کے بعد باقی بچ رہے ( یعنی باپ ، بیٹا ، بھائی اور چچا وغیرہ ) اور اگر عورت قتل ہو جائے تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی اور یہی لوگ قاتل سے قصاص لینے کے حقدار ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قاتل کے لیے کچھ نہیں ۔ اور اگر مقتول کا اور کوئی وارث نہ ہو تو سب سے قریب ترین آدمی اس کا وارث ہو گا اور قاتل کو وراثت میں سے کچھ نہیں ملے گا ۔ “ محمد بن راشد نے کہا : مجھے یہ تمام روایت سلیمان بن موسیٰ نے بسند عمرو بن شعیب اپنے والد سے ، اس نے اپنے دادا سے ، اس نے نبی کریم ﷺ سے بیان کی ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ محمد بن راشد اہل دمشق سے تھے اور قتل ( کے خوف ) سے بصرہ بھاگ گئے تھے ۔
تشریح : 1 : علماپر واجب ہے کہ مسلمانوں کو ان کے معاشرتی شرعی حقوقوحدود سے آگاہ کرتے رہا کریں۔ 2 : کسی بھی مسلمان کو روا نہیں کہ مغلوب الغضب ہو کر کوئی ایسی کاروائی کرے جس سے وہ خود اس کے اقارب طعن کا نشانہ بنیں ورنہ انہیں دیت دینے کا پابند ہونا پڑے گا ۔ 3 : مام کے لالچ میں اپنے مورث کو قتل کر دینا انتہائی عظیم اور قبیح جرم ہے ایسے نامعقول کو دنیا وآخرت خراب ہونے کے علاوہ وراثت سے بھی کلی طور پر محروم ٹھہرایا گیا ہے ۔ 4 : اس حدیث سے معاشرتی زندگی اور صلہ رحمی کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے اقارب سے ربط قائم رکھنا اوراسے مضبوط بنانا ضروری ہے ،کیو نکہ اگر اللہ نہ کرے کبھی کوئی قصور ہو جائے تو دیت وغیرہ کی ادائیگی میں ان سے تعاون لے دے سکے ۔ بالخصوص عورت کی دیت اس کے عصبات کے ذمے آتی ہے نہ کہ شوہر کے ذمے۔ 1 : علماپر واجب ہے کہ مسلمانوں کو ان کے معاشرتی شرعی حقوقوحدود سے آگاہ کرتے رہا کریں۔ 2 : کسی بھی مسلمان کو روا نہیں کہ مغلوب الغضب ہو کر کوئی ایسی کاروائی کرے جس سے وہ خود اس کے اقارب طعن کا نشانہ بنیں ورنہ انہیں دیت دینے کا پابند ہونا پڑے گا ۔ 3 : مام کے لالچ میں اپنے مورث کو قتل کر دینا انتہائی عظیم اور قبیح جرم ہے ایسے نامعقول کو دنیا وآخرت خراب ہونے کے علاوہ وراثت سے بھی کلی طور پر محروم ٹھہرایا گیا ہے ۔ 4 : اس حدیث سے معاشرتی زندگی اور صلہ رحمی کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے اقارب سے ربط قائم رکھنا اوراسے مضبوط بنانا ضروری ہے ،کیو نکہ اگر اللہ نہ کرے کبھی کوئی قصور ہو جائے تو دیت وغیرہ کی ادائیگی میں ان سے تعاون لے دے سکے ۔ بالخصوص عورت کی دیت اس کے عصبات کے ذمے آتی ہے نہ کہ شوہر کے ذمے۔