كِتَابُ الدِّيَاتِ بَابُ الدِّيَةِ كَمْ هِيَ؟ حسن حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ قَالَ فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا فَقَالَ أَلَا إِنَّ الْإِبِلَ قَدْ غَلَتْ قَالَ فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَيْ حُلَّةٍ قَالَ وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنْ الدِّيَةِ
کتاب: دیتوں کا بیان
باب: دیت کی مقدار کا بیان
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار ( سونے کے ) یا آٹھ ہزار درہم ( چاندی کے ) تھی اور ان دنوں اہل کتاب کی دیت مسلمانوں کی دیت کے مقابلے میں آدھی ہوتی تھی ۔ چنانچہ معاملہ ایسے ہی رہا حتیٰ کہ سیدنا عمر ؓ خلیفہ بنے ۔ تو انہوں نے خطبہ دیا اور کہا : بلاشبہ اونٹ مہنگے ہو گئے ہیں ، پھر آپ نے یہ دیت سونے والوں پر ایک ہزار دینار اور چاندی والوں پر بارہ ہزار دینار کر دی ، گائے والوں کے لیے دو سو گائے اور بکریوں والوں کے لیے دو ہزار بکریاں ، حلے ( خاص قسم کے کپڑے ) تیار کرنے والوں کے لیے دو سو حلے مقرر کی ، اور ذمی لوگوں کی دیت ویسے ہی رہنے دی اور اسے نہیں بڑھایا ۔
تشریح :
حکومت اسلامیہ کے اصحاب حل وعقد پر لازم ہے کہ دیت جیسے شرعی واجبات میں بازار کے بھاوکے مطابق عوام میں اعلان عام کرتے رہا کریں تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو ۔
حکومت اسلامیہ کے اصحاب حل وعقد پر لازم ہے کہ دیت جیسے شرعی واجبات میں بازار کے بھاوکے مطابق عوام میں اعلان عام کرتے رہا کریں تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو ۔