Book - حدیث 451

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ فِي بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى وَهُوَ أَتَمُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ حَدَّثَنَا نَافِعٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ الْمَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ قَالَ مُجَاهِدٌ وَعُمُدُهُ مِنْ خَشَبِ النَّخْلِ فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ شَيْئًا وَزَادَ فِيهِ عُمَرُ وَبَنَاهُ عَلَى بِنَائِهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ وَأَعَادَ عُمُدَهُ قَالَ مُجَاهِدٌ عُمُدَهُ خَشَبًا وَغَيَّرَهُ عُثْمَانُ فَزَادَ فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً وَبَنَى جِدَارَهُ بِالْحِجَارَةِ الْمَنْقُوشَةِ وَالْقَصَّةِ وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ وَسَقْفَهُ بِالسَّاجِ قَالَ مُجَاهِدٌ وَسَقَّفَهُ السَّاجَ قَالَ أَبُو دَاوُد الْقَصَّةُ الْجِصُّ

ترجمہ Book - حدیث 451

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: تعمیر مساجد کا بیان جناب نافع بیان کرتے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسجد نبوی کچی انیٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی ۔ اور اس کے ستون کھجوروں کی لکڑی کے تھے ۔ سیدنا ابوبکر ؓ نے اس میں کچھ اضافہ نہ کیا جبکہ سیدنا عمر ؓ نے اس میں اضافہ کیا مگر اسے ویسے ہی بنایا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی ۔ مگر اس کے ستون بدل دیے اور لکڑی کے لگائے ۔ اور سیدنا عثمان ؓ نے اس ( تعمیر ) کو بدل دیا اور بہت زیادہ اضافہ کیا ۔ اور اس کی دیواریں اور ستون منقش پتھروں اور چونے سے بنائے اور چھت ساگوان کی لکڑی کی بنائی ۔ مجاہد کے لفظ ہیں : «وسقفه بالساج» اور ساگوان سے اس کی چھت بنائی ۔ امام ابوداؤد ؓ نے فرمایا کہ لفظ حدیث «القصة» کا معنی «الجص» یعنی ” گچ ہے ۔ “
تشریح : علامہ ابن بطال وغیرہ نےفرمایا ہےکہ یہ روایت دلیل ہےکہ تعمیر مساجد اوران کی آرائش ہمیشہ میانہ روی سےہونی چاہیے ۔باوجود یکہ حضرت عمر کےدور میں فتوحات کےباعث مال کی بہتات تھی مگر انہوں نےمسجد کوتبدیل نہیں کیا۔صرف چھت کی شاخیں اوربوسیدہ ستون تبدیل کیے ۔ان کےبعد حضرت عثمان نےاس کی تنگ دامانی کےباعث اسے وسیع اورخوبصورت بنایا مگر اس میں کوئی غلونہ تھا ، اس کےباوجود بعض صحابہ نے ان پرتنقید کی ۔تاریخی طور پر ثابت ہےکہ ولید بن عبدالملک بن مروان پہلا شخص ہےجس نے مساجد کوآراستہ کیااور یہ صحابہ کا بالکل آخری دور ہے ۔مگر اکثر اہل علم فتنے کےخوف سےخاموش رہے ۔( عون المعبود) کچھ نے نقد بھی کیا ۔ علامہ ابن بطال وغیرہ نےفرمایا ہےکہ یہ روایت دلیل ہےکہ تعمیر مساجد اوران کی آرائش ہمیشہ میانہ روی سےہونی چاہیے ۔باوجود یکہ حضرت عمر کےدور میں فتوحات کےباعث مال کی بہتات تھی مگر انہوں نےمسجد کوتبدیل نہیں کیا۔صرف چھت کی شاخیں اوربوسیدہ ستون تبدیل کیے ۔ان کےبعد حضرت عثمان نےاس کی تنگ دامانی کےباعث اسے وسیع اورخوبصورت بنایا مگر اس میں کوئی غلونہ تھا ، اس کےباوجود بعض صحابہ نے ان پرتنقید کی ۔تاریخی طور پر ثابت ہےکہ ولید بن عبدالملک بن مروان پہلا شخص ہےجس نے مساجد کوآراستہ کیااور یہ صحابہ کا بالکل آخری دور ہے ۔مگر اکثر اہل علم فتنے کےخوف سےخاموش رہے ۔( عون المعبود) کچھ نے نقد بھی کیا ۔