كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ الْمَرْأَةِ الَّتِي أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِرَجْمِهَا مِنْ جُهَيْنَةَ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ, أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ! وَقَالَ الْآخَرُ- وَكَانَ أَفْقَهَهُمَا-: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي أَنْ أَتَكَلَّمَ! قَالَ: >تَكَلَّمْ<، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا- وَالْعَسِيفُ: الْأَجِيرُ-، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ، وَبِجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ, لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ, أَمَّا غَنَمُكَ وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ إِلَيْكَ<، وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً، وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأَمَرَ أُنَيْسًا الْأَسْلَمِيَّ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الْآخَرِ, فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، رَجَمَهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا.
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
باب: قبیلہ جہینہ کی عورت کا ذکر جس کو نبی کریم ﷺ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا
سیدنا ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر آئے ۔ ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کر دیں ۔ اور دوسرے نے کہا : اور وہ اس سے بڑھ کر سمجھدار تھا ۔ ہاں اے اللہ کے رسول ! ہم میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فر دیں اور مجھے اجازت دیں کہ بات کروں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” کہو ۔ “ اس نے کہا : میرا بیٹا اس شخص کے ہاں نوکر تھا ۔ «عسيف» کے معنی ہیں ، نوکر ، مزدور ۔ تو اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم ہے ، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور اپنی ایک لونڈی فدیہ دی ہے ۔ پھر میں نے اہل علم سے معلوم کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیے شہر بدری ہے اور سنگساری اس کی بیوی پر ہے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تم میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھے واپس ہوں گی ۔ “ اور اس کے لڑکے کو سو کوڑے لگائے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کر دیا اور انیس اسلمی کو فرمایا کہ دوسرے کی بیوی کے پاس جائے ، اگر وہ اعتراف کر لے تو اس کو سنگسار کر دے ، چنانچہ اس نے اعتراف کر لیا تو اس نے اس کو سنگسار کر دیا ۔
تشریح :
1) قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سے کسی سے بھی مقدمہ سننے کی ابتدا کر سکتا ہے
2) جب کسی ادنی درجے کے مفتی نےفتویٰ دیا ہو تو اس سے بڑھ کر اعلی صاحب علم سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں ہے اور پہلے کا فتوی دینا بھی کوئی عیب نہیں.
3) رسول اللہﷺ کےسب فیصلے اور فرامین کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ ہی کا حصہ ہے، بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہوں ۔
4) ہر ایسی صلح یا بیع جو غیر شرعی اصولوں پر ہوئی ہو ٹوٹ جاتی ہےاور اس سلسلے میں لیا گیا تاوان بھی واپس کر نا ہوتا ہے ۔
5) غیر شادی شدہ زانی پر سوکوڑے ایک سال شہر بدری ہے۔
6) شادی شدہ زانی پر صعف رجم ہے کوڑے نہیں ۔
7) زنا کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان فرقت نہیں آجاتی۔
8) حاکم یاقاضی کانائب حدودکی تنقیدکرسکتا ہے۔(خطابی)
1) قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سے کسی سے بھی مقدمہ سننے کی ابتدا کر سکتا ہے
2) جب کسی ادنی درجے کے مفتی نےفتویٰ دیا ہو تو اس سے بڑھ کر اعلی صاحب علم سے رجوع کرلینا کوئی معیوب نہیں ہے اور پہلے کا فتوی دینا بھی کوئی عیب نہیں.
3) رسول اللہﷺ کےسب فیصلے اور فرامین کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ کی تفسیر ہونے کی بنا پر کتاب اللہ ہی کا حصہ ہے، بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہوں ۔
4) ہر ایسی صلح یا بیع جو غیر شرعی اصولوں پر ہوئی ہو ٹوٹ جاتی ہےاور اس سلسلے میں لیا گیا تاوان بھی واپس کر نا ہوتا ہے ۔
5) غیر شادی شدہ زانی پر سوکوڑے ایک سال شہر بدری ہے۔
6) شادی شدہ زانی پر صعف رجم ہے کوڑے نہیں ۔
7) زنا کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان فرقت نہیں آجاتی۔
8) حاکم یاقاضی کانائب حدودکی تنقیدکرسکتا ہے۔(خطابی)