Book - حدیث 4419

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ صحيح دون قوله لعله أن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ هَزَّالٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي، فَأَصَابَ جَارِيَةً مِنَ الْحَيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْهُ بِمَا صَنَعْتَ, لَعَلَّهُ يَسْتَغْفِرُ لَكَ، وَإِنَّمَا يُرِيدُ بِذَلِكَ رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ لَهُ مَخْرَجًا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَعَادَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ, فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَعَادَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ, حَتَّى قَالَهَا أَرْبَعَ مِرَارٍ! قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّكَ قَدْ قُلْتَهَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ, فَبِمَنْ؟<. قَالَ: بِفُلَانَةٍ، فَقَالَ: >هَلْ ضَاجَعْتَهَا؟<، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: >هَلْ بَاشَرْتَهَا؟<، قَالَ: نَعَمْ: قَالَ: >هَلْ جَامَعْتَهَا؟<، قَالَ: نَعَمْ: قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ، فَأُخْرِجَ بِهِ إِلَى الْحَرَّةِ، فَلَمَّا رُجِمَ، فَوَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ جَزِعَ، فَخَرَجَ يَشْتَدُّ، فَلَقِيَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ وَقَدْ عَجَزَ أَصْحَابُهُ، فَنَزَعَ لَهُ بِوَظِيفِ بَعِيرٍ، فَرَمَاهُ بِهِ، فَقَتَلَهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ؟! فَقَالَ: >هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ لَعَلَّهُ أَنْ يَتُوبَ فَيَتُوبَ, اللَّهُ عَلَيْهِ<.

ترجمہ Book - حدیث 4419

کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان باب: ماعز بن مالک کے رجم کا بیان جناب یزید بن نعیم بن بزال اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک یتیم لڑکا تھا اور میرے والد کی سرپرستی میں تھا ۔ پھر وہ قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ زنا کر بیٹھا ۔ تو میرے والد نے اس سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی انہیں خبر دو ‘ شاید وہ تیرے لیے استغفار کریں ۔ اور اس سے ان کا مقصد صرف یہی امید تھی کہ اسے کوئی راہ مل جائے ۔ چنانچہ وہ حاضر ہوا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے ‘ لہذٰا اللہ کی کتاب کا حکم مجھ پر نافذ فر دیجئیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے رخ پھیر لیا ۔ اس نے پھر کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے مجھ پر اللہ کی کتاب کا حکم نافذ فر دیجئیے ۔ آپ ﷺ نے اس سے رخ پھیر لیا ۔ تو اس نے ( تیسری بار ) پھر کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے ۔ مجھ پر اللہ کی کتاب کا حکم نافذ کر دیجئیے ۔ حتیٰ کہ اس نے چار بار اس طرح کہا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تو نے چار بار یہ بات کہی ہے ‘ تو نے کس کے ساتھ کیا ہے ؟ “ کہا : فلاں لڑکی کے ساتھ ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” تو اس کے ساتھ اکٹھے لیٹا ہے ؟ “ کہا : ہاں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” تو اس کے ساتھ چمٹا ہے ؟ “ کہا : ہاں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” تو نے اس کے ساتھ جماع کیا ہے ؟ “ کہا : ہاں ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ اس کو حرہ کی طرف لے جایا گیا ۔ جب اسے پتھر مارے گئے اور اس نے پتھروں کی چوٹ محسوس کی تو برداشت نہ کر پایا اور بھاگ کھڑا ہوا ۔ تو سیدنا عبداللہ بن انیس نے اس کو پا لیا ‘ جبکہ دیگر ساتھی تھک گئے تھے ۔ تو عبداللہ نے اس کو اونٹ کا پایا نکال مارا اور اسے قتل کر دیا ‘ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر یہ سب بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہ دیا ‘ شاید وہ توبہ کر لیتا اور اللہ اس کی توبہ قبول فر لیتا ۔ “
تشریح : 1) حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ مشہورصحابی ہیں۔ شیطان کےاغوا سے زنا کر بیٹھے تھے انھوں نے رسول اللہﷺکے سامنے اقرار کیااور دنیا کی سزا قبول کی۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ کسی بھی صاحب ایمان کو کسی طرح روا نہیں کہ اب ان کے بارے میں کوئی نامناسب بات کہے یادل میں رکھے۔ 2) تم نے اس کوچھوڑ کیوں نہ دیا ۔اس جملے کا صیح مفہوم درج ذیل حدیث میں آرہا ہے یعنی اس میں اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لانے کی بات تھی کہآپ اسے یہ سزا بھگت لینے کی تلقین فرماتے کہ یہ سزا عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی اور آسان ہے۔ 1) حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ مشہورصحابی ہیں۔ شیطان کےاغوا سے زنا کر بیٹھے تھے انھوں نے رسول اللہﷺکے سامنے اقرار کیااور دنیا کی سزا قبول کی۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ کسی بھی صاحب ایمان کو کسی طرح روا نہیں کہ اب ان کے بارے میں کوئی نامناسب بات کہے یادل میں رکھے۔ 2) تم نے اس کوچھوڑ کیوں نہ دیا ۔اس جملے کا صیح مفہوم درج ذیل حدیث میں آرہا ہے یعنی اس میں اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لانے کی بات تھی کہآپ اسے یہ سزا بھگت لینے کی تلقین فرماتے کہ یہ سزا عذاب کے مقابلے میں بہت ہلکی اور آسان ہے۔