كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ مَا لَا قَطْعَ فِيهِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ, أَنَّ عَبْدًا سَرَقَ وَدِيًّا مِنْ حَائِطِ رَجُلٍ، فَغَرَسَهُ فِي حَائِطِ سَيِّدِهِ، فَخَرَجَ صَاحِبُ الْوَدِيِّ يَلْتَمِسُ وَدِيَّهُ، فَوَجَدَهُ، فَاسْتَعْدَى عَلَى الْعَبْدِ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ- وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ يَوْمَئِذٍ-، فَسَجَنَ مَرْوَانُ الْعَبْدَ، وَأَرَادَ قَطْعَ يَدِهِ، فَانْطَلَقَ سَيِّدُ الْعَبْدِ إِلَى رَافِعِ ابْنِ خَدِيجٍ، فَسَأَلَهُ، عَنْ ذَلِكَ؟ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ، وَلَا كَثَرٍ<، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ مَرْوَانَ أَخَذَ غُلَامِي وَهُوَ يُرِيدُ قَطْعَ يَدِهِ, وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ تَمْشِيَ مَعِي إِلَيْهِ فَتُخْبِرَهُ بِالَّذِي سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! فَمَشَى مَعَهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، حَتَّى أَتَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، فَقَالَ لَهُ رَافِعٌ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ< فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِالْعَبْدِ فَأُرْسِلَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: الْكَثَرُ: الْجُمَّارُ.
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
باب: ایسی چوری جس میں ہاتھ میں نہیں کٹتا
محمد بن یحییٰ بن حبان نے بیان کیا کہ ایک غلام نے کسی کے باغ سے کھجور کا ایک پودا چوری کر کے اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا ۔ پودے والا اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا اور اسے پا لیا ۔ پھر اس غلام کا مقدمہ مروان بن حکم کے ہاں پیش کر دیا جو ان دنوں مدینے کے امیر تھے ۔ مروان نے غلام کو قید کر لیا اور چاہا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دے ۔ تب غلام کا مالک سیدنا رافع بن خدیج ؓ کے ہاں گیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ‘ وہ فرماتے تھے ” ( درختوں پر لگے ) پھل میں اور کھجور کی گری میں ہاتھ نہیں کٹتا ۔ “ تو اس آدمی نے کہا : تحقیق مروان نے میرے غلام کو پکڑا ہوا ہے اور وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے ۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ اس کے پاس چلیں اور جو حدیث آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے اسے بھی بتائیں ۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج ؓ اس کے ساتھ گئے اور مروان کے پاس پہنچے اور اس کے سامنے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ” پھل میں اور کھجور کی گری میں ہاتھ نہیں کٹتا ۔ “ چنانچہ مروان نے حکم دیا اور غلام کو چھوڑ دیا گیا ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ «الكثر» سے مراد کھجور کی وہ نرم گری ہے جو اس کے تنے کے اوپر کنارے میں ہوتی ہے ۔
تشریح :
1)چونکہ درخت پر لگے پھل یاکھجوروں کی گری اور اسی طرح باغ میں لگے درخت غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اصطلاحا چوری کی حد میں نہیں آتے۔ ان چیزوں کا بغیر اجازت یا چھپ کرلے لینابلاشبہ جرم ہے مگر اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا بلکہ مناسب تعزیزو تنبیہ یاجرمانہ ہوگا۔
2) فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلوم ہوجانے کےبعد ذاتی، سیاسییادیگر مصالح کی ترجیح کاکوئی مقام نہیں رہ جاتا۔
1)چونکہ درخت پر لگے پھل یاکھجوروں کی گری اور اسی طرح باغ میں لگے درخت غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اصطلاحا چوری کی حد میں نہیں آتے۔ ان چیزوں کا بغیر اجازت یا چھپ کرلے لینابلاشبہ جرم ہے مگر اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا بلکہ مناسب تعزیزو تنبیہ یاجرمانہ ہوگا۔
2) فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معلوم ہوجانے کےبعد ذاتی، سیاسییادیگر مصالح کی ترجیح کاکوئی مقام نہیں رہ جاتا۔