Book - حدیث 4380

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابٌ فِي التَّلْقِينِ فِي الْحَدِّ ضعیف حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ قَدِ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟<، قَالَ: بَلَى، فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُطِعَ، وَجِيءَ بِهِ، فَقَالَ: >اسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ<. فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: >اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ<.- ثَلَاثًا-. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ Book - حدیث 4380

کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان باب: قاضی اقرار کرنے والے کو اس کے اقرار سے منحرف کرے ابوامیہ مخزومی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ازخود اعتراف کیا مگر مال اس کے پاس سے نہیں ملا تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : میں نہیں سمجھتا کہ تو نے چوری کی ہو ہے ۔ “ اس نے کہا : کیوں نہیں ( یعنی کی ہے ) ۔ آپ ﷺ نے دو یا تین بار ایسے ہی کہا ۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا ۔ پھر پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا ” اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو ۔ “ اس نے کہا : میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فر لے ۔ “ تین بار فرمایا ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : اس روایت کو عمرو بن عاصم نے بواسطہ ہمام ‘ اسحاق بن عبداللہ سے روایت کرتے ہوئے یوں کہا : ابوامیہ جو کہ انصاری آدمی تھے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔
تشریح : 1) معلوم ہواکہ قابل حدجرم میں اگرکوئی ازخودقرار کررہاہو تو مستحب ہےکہ اس انداز سے بات کی جائے کہ وہ اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے اور حد لگنےسے بچ جائے۔ 2) حد لگنے کے بعد بھی مجرم کواستغفار اور توبہ کیترغیب دی جانی چاہئے،کیونکہ اگرکوئی ان حدود پر راضی نہ ہواور اپنے جرم کو درست سمجھتاہوتویہ حداس کے لئے کفارہ نہیں بن سکتی۔ جبکہ صاحب ایمان وتسلیم کے لیے حدود کفارہ ہوتی ہیں۔ (صيح البخاري الحدود باب:الحدود كفارة حديث:٦٧٨٤) 1) معلوم ہواکہ قابل حدجرم میں اگرکوئی ازخودقرار کررہاہو تو مستحب ہےکہ اس انداز سے بات کی جائے کہ وہ اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے اور حد لگنےسے بچ جائے۔ 2) حد لگنے کے بعد بھی مجرم کواستغفار اور توبہ کیترغیب دی جانی چاہئے،کیونکہ اگرکوئی ان حدود پر راضی نہ ہواور اپنے جرم کو درست سمجھتاہوتویہ حداس کے لئے کفارہ نہیں بن سکتی۔ جبکہ صاحب ایمان وتسلیم کے لیے حدود کفارہ ہوتی ہیں۔ (صيح البخاري الحدود باب:الحدود كفارة حديث:٦٧٨٤)