Book - حدیث 438

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ نَسِيَهَا شاذ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيُّ، مِنَ الْمَدِينَةِ وَكَانَتِ الْأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ، فَحَدَّثَنَا قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْأُمَرَاءِ - بِهَذِهِ الْقِصَّةِ - قَالَ: فَلَمْ تُوقِظْنَا إِلَّا الشَّمْسُ طَالِعَةً فَقُمْنَا وَهِلِينَ لِصَلَاتِنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُوَيْدًا رُوَيْدًا»، حَتَّى إِذَا تَعَالَتِ الشَّمْسُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَرْكَعْهُمَا»، فَقَامَ مَنْ كَانَ يَرْكَعُهُمَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَرْكَعُهُمَا فَرَكَعَهُمَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَادَى بِالصَّلَاةِ فَنُودِيَ بِهَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِنَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «أَلَا إِنَّا نَحْمَدُ اللَّهَ أَنَّا لَمْ نَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا يَشْغَلُنَا عَنْ صَلَاتِنَا وَلَكِنَّ أَرْوَاحَنَا كَانَتْ بِيَدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَرْسَلَهَا أَنَّى شَاءَ فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مِنْ غَدٍ صَالِحًا فَلْيَقْضِ مَعَهَا مِثْلَهَا»،

ترجمہ Book - حدیث 438

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: جو شخص نماز کے وقت میں سوتا رہ جائے یا نماز(پڑھنا) بھول جائے؟ جناب خالد بن سمیر راوی ہیں کہ مدینہ سے عبداللہ بن رباح انصاری ہمارے ہاں تشریف لائے اور انصار انہیں فقیہ گردانتے تھے ۔ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے شہسوار ابوقتادہ انصاری نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ” جیش الامراء “ روانہ فرمایا ۔ اور یہ قصہ بیان کیا ۔ کہا کہ ہمیں سورج ہی نے طلوع ہو کر جگایا ، اور ہم گھبرا کر نماز کے لیے اٹھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” خیال سے ، سنبھل کر ۔ “ حتیٰ کہ جب سورج اونچا آ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو تم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے ۔ “ تو جو پہلے پڑھا کرتا تھا اس نے پڑھیں اور جو نہ پڑھتا تھا اس نے بھی پڑھیں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اذان کہی گئی اور آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی ۔ جب فارغ ہوئے تو فرمایا ” ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں مشغول نہ تھے کہ نماز ہم سے رہ گئی بلکہ ہماری روحیں اللہ کے ہاتھ میں تھیں تو اس نے جب چاہا انہیں چھوڑ دیا ، لہٰذا جو تم میں سے کل صحت و سلامتی کے ساتھ نماز فجر پائے اس کے ساتھ اس نماز کی قضاء بھی دے ۔ “
تشریح : ومسائل ( 1) یہ روایت سنداً تو صحیح ہے،علاوہ ازیں دیگر صحیح روایات میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے ۔لیکن اس روایت میں اس کےراوی خالد بن سمیر کوبیان واقعہ میں تین مقامات پروہم ہواہے۔ (الف) کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش الامراء روانہ فرمایا ۔ (ب) جوتم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے، پڑھ لے۔ (ج) اس کےساتھ اس نماز کی قضا بھی دے۔گویا اس لشکر کو’’ جیش الامراء روانہ ،، قرار دینا ، صبح کوسنتوں کےبارےمیں اختیار دینا اور اسی طرح دوسرے دن فجر کی نماز کےساتھ اس فجر کی نماز کی قضاء دینے کاحکم یہ تینوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔ان اوہام سےقطع نظریہ روایت صحیح ہے۔انہی اوہام کی وجہ سےغالباً شیخ البانی  نےاسے شاذ قرار دیا ہے۔اس لیے فوت شدہ نماز جاگ آنے یا یاد آنے ہی پر ادا کی جانی چاہیے جیسا کہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔اسے اگلے دن کی اسی نماز تک مؤخرکرنا درست نہیں ۔ (2) ( جیش الامراء ) سےبالعموم غزوہ موتہ مراد لیا گیا ہےجبکہ صاحب بذل المجہود مولانا خلیل احمد سہارنپوری کاخیال ہےکہ غزوہ خیبر بھی ( جیش الامراء ) ہوسکتا ہے۔ (3) دنیا کےکسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نماز میں تاخیر کردینا بہت بڑی نحوست ہےاور اپنی جان پرایک بھاری ظلم ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پردرد شقیقہ کےعارضہ میں مبتلا تھے توپہلے حضرت ابوبکر پھر حضرت عمر اور ان کےبعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا ۔واللہ اعلم. ومسائل ( 1) یہ روایت سنداً تو صحیح ہے،علاوہ ازیں دیگر صحیح روایات میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے ۔لیکن اس روایت میں اس کےراوی خالد بن سمیر کوبیان واقعہ میں تین مقامات پروہم ہواہے۔ (الف) کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش الامراء روانہ فرمایا ۔ (ب) جوتم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے، پڑھ لے۔ (ج) اس کےساتھ اس نماز کی قضا بھی دے۔گویا اس لشکر کو’’ جیش الامراء روانہ ،، قرار دینا ، صبح کوسنتوں کےبارےمیں اختیار دینا اور اسی طرح دوسرے دن فجر کی نماز کےساتھ اس فجر کی نماز کی قضاء دینے کاحکم یہ تینوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔ان اوہام سےقطع نظریہ روایت صحیح ہے۔انہی اوہام کی وجہ سےغالباً شیخ البانی  نےاسے شاذ قرار دیا ہے۔اس لیے فوت شدہ نماز جاگ آنے یا یاد آنے ہی پر ادا کی جانی چاہیے جیسا کہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔اسے اگلے دن کی اسی نماز تک مؤخرکرنا درست نہیں ۔ (2) ( جیش الامراء ) سےبالعموم غزوہ موتہ مراد لیا گیا ہےجبکہ صاحب بذل المجہود مولانا خلیل احمد سہارنپوری کاخیال ہےکہ غزوہ خیبر بھی ( جیش الامراء ) ہوسکتا ہے۔ (3) دنیا کےکسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نماز میں تاخیر کردینا بہت بڑی نحوست ہےاور اپنی جان پرایک بھاری ظلم ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پردرد شقیقہ کےعارضہ میں مبتلا تھے توپہلے حضرت ابوبکر پھر حضرت عمر اور ان کےبعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا ۔واللہ اعلم.