كِتَابُ الْحُدُودِ بَابٌ فِي صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ حسن دون قوله ارجموه والأرجح أنه لم يرجم حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا الْفِّرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ، فَتَجَلَّلَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، فَصَاحَتْ وَانْطَلَقَ، فَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، وَمَرَّتْ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا فَانْطَلَقُوا، فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا، فَأَتَوْهَا بِهِ، فَقَالَتْ: نَعَمْ, هُوَ هَذَا، فَأَتَوْا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ، قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنَا صَاحِبُهَا، فَقَالَ لَهَا: >اذْهَبِي، فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ<. وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا. قَالَ أَبُو دَاوُد: يَعْنِي: الرَّجُلَ الْمَأْخُوذَ، وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا: >ارْجُمُوهُ<، فَقَالَ: >لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ<. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ أَيْضًا، عَنْ سِمَاكٍ.
کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
باب: قابل حد جرم کا مرتکب اگر خود حاضر ہو کر اقرار جرم کر لے تو ؟
جناب علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک عورت نماز کے ارادے سے نکلی تو راستے میں اسے ایک مرد ملا جو اس پر چڑھ بیٹھا اور اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کی ، وہ چیخی چلائی اور وہ چلا گیا ۔ پھر عورت کے پاس سے ایک اور آدمی گزرا تو وہ عورت بولی کہ یہی ہے وہ جس نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے ۔ مہاجرین کی ایک جماعت وہاں سے گزری تو عورت نے کہا : بیشک اس آدمی نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے ۔ تو وہ گئے اور اسے پکڑ لائے جس کے بارے میں اس نے گمان کیا کہ اس نے اس کے ساتھ مباشرت کی ہے ۔ وہ اسے پکڑ کر عورت کے پاس لائے تو اس نے کہا : ہاں یہی ہے وہ ۔ پس وہ اسے رسول اللہ ﷺ کہ پاس لے آئے ۔ جب آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم دیا ( یعنی حد لگانے کا ) تو اصل مجرم جو عورت کے ساتھ ملوث ہوا تھا کھڑا ہو گیا اور بولا اے اللہ کے رسول ! اس کا مجرم میں ہوں ۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا ” تم جاؤ اللہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے ۔ “ اور اس آدمی کے متعلق اچھے کلمات فرمائے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : یعنی اس آدمی کے متعلق جو ( شبہے میں ) پکڑا گیا تھا ۔ اور جو مرتکب ہوا تھا اس کے متعلق فرمایا کہ ” اسے رجم کر دو ۔ “ پھر فرمایا ” اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر یہ ( توبہ ) اہل مدینہ کرتے تو بھی قبول کر لی جاتی ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس رویت کو اسبات بن نصر نے بھی سماک سے روایت کیا ہے ۔
تشریح :
1)اسلامی معاشرے کا یہ مفہوم کہ اس کے سب افراد گناہوں اور غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں درست نہیں بلکہ درست یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں شرعی طرز معاشرت کا چلن غالب ہوتاہے۔ اگر کسی سے کوئی جرم ہوجائے تو اسکے بارے مین شرعی قانون پر پورا پورا عمل بھی کیاجاتاہے۔
2)مجرم جب ازخوداقرار کرےاورتحقیق سےثابت ہوکہ اسکے اقرار میں کوئی شبہ نہیں تو اس پر شرعی حد نافذ ہو گی مگر اس روایت کے سلسلے میں علامہ البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ شخص رجم نہیں کیا گیا تھا اور لفظ(ارجموه) اسےرجم کردو صیح نہیں۔
1)اسلامی معاشرے کا یہ مفہوم کہ اس کے سب افراد گناہوں اور غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں درست نہیں بلکہ درست یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں شرعی طرز معاشرت کا چلن غالب ہوتاہے۔ اگر کسی سے کوئی جرم ہوجائے تو اسکے بارے مین شرعی قانون پر پورا پورا عمل بھی کیاجاتاہے۔
2)مجرم جب ازخوداقرار کرےاورتحقیق سےثابت ہوکہ اسکے اقرار میں کوئی شبہ نہیں تو اس پر شرعی حد نافذ ہو گی مگر اس روایت کے سلسلے میں علامہ البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ شخص رجم نہیں کیا گیا تھا اور لفظ(ارجموه) اسےرجم کردو صیح نہیں۔