Book - حدیث 4354

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى، أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ, أَحَدُهُمَا، عَنْ يَمِينِي، وَالْآخَرُ، عَنْ يَسَارِي, فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتٌ، فَقَالَ: >مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى- أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ-؟< قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، قَالَ: >لَنْ نَسْتَعْمِلَ- أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ- عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ, وَلَكِنِ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى- أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ-<. فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ مُعَاذٌ، قَالَ: انْزِلْ, وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ، ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السُّوءِ! قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ, قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ- قَالَ اجْلِسْ نَعَمْ قَالَ لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ- ثَلَاثَ مَرَّاتٍ-، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ، ثُمَّ تَذَاكَرَا قِيَامَ اللَّيْلِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَمَّا أَنَا, فَأَنَامُ وَأَقُومُ- أَوْ أَقُومُ وَأَنَامُ-، وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي.

ترجمہ Book - حدیث 4354

کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان باب: مرتد ، یعنی دین اسلام سے پھر جانے والے کا حکم سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ میرے ساتھ بنو اشعر کے دو آدمی بھی تھے ‘ ایک میری دائیں جانب تھا اور دوسرا بائیں جانب ۔ ان دونوں نے کام ( کسی منصب اور ذمہ داری ) کا سوال کر دیا اور نبی کریم ﷺ خاموش رہے ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ” اے ابوموسیٰ ! “ یا فرمایا ” اے عبداللہ بن قیس ! تیرا کیا خیال ہے ؟ “ میں نے عرض کیا : قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! انہوں نے مجھے اپنے دل کی بات نہیں بتائی تھی اور مجھے خیال نہ تھا کہ یہ کسی منصب کے طلب گار ہیں ‘ اور گویا میں رسول اللہ ﷺ کی مسواک کی طرف دیکھ رہا ہوں جو آپ ﷺ کے ہونٹ کے نیچے تھی جس سے وہ اوپر کو اٹھ سا گیا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” ہم کسی کو اپنا کام ہرگز نہ سونپیں گے ۔ “ یا فرمایا ” ہم ایسے کسی شخص کو اپنا کام نہیں دیتے ہیں جو از خود اس کا طلب گار ہو ، لیکن اے ابوموسیٰ ! “ یا فرمایا ” اے عبداللہ بن قیس ! تم جاؤ “ اور انہیں یمن کی طرف بھیج دیا ۔ پھر ان کے پیچھے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو بھی بھیج دیا ۔ جب معاذ ؓ ان کے پاس پہنچے تو ابوموسیٰ ؓ نے کہا : تشریف لائیے ۔ اتریے اور انہیں تکیہ پیش کیا ۔ لیکن سیدنا معاذ ؓ نے اچانک دیکھا کہ ان کے ہاں ایک آدمی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ۔ انہوں نے پوچھا ‘ اسے کیا ہے ؟ کہا کہ یہ یہودی تھا ‘ پھر مسلمان ہو گیا لیکن دوبارہ اپنے باطل دین کی طرف پھر گیا ( مرتد ہو گیا ) ہے ۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا : جب تک اسے قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھوں گا ‘ یہ فیصلہ ہے اللہ اور رسول کا ‘ ابوموسیٰ ؓ نے کہا بیٹھ جائیے ‘ ہاں ( فیصلہ یہی ہے ) ۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا : جب تک اسے قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھوں گا ۔ یہ فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے ، انہوں نے تین بار کہا ۔ چنانچہ ابوموسیٰ ؓ نے حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا ۔ پھر وہ دونوں قیام اللیل ( رات کی نماز ) کے متعلق بات چیت کرتے رہے ۔ ان میں سے ایک ‘ یعنی سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے کہا : میں سوتا ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ۔ یا کہا کہ قیام کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور اپنی نیند میں اسی چیز کا امیدوار ہوتا ہوں جس کی مجھے اپنے قیام میں امید ہوتی ہے ۔ ( یعنی اجر و ثواب کی ) ۔
تشریح : )اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔ مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔ 2)مہمانکا حق ہے کہ اس کیعزت افزائی کی جائے۔ 3)منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔4)حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔5)مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے ‘مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے )اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔ مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔ 2)مہمانکا حق ہے کہ اس کیعزت افزائی کی جائے۔ 3)منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔4)حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔5)مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے ‘مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے