Book - حدیث 4351

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ, أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- أَحْرَقَ نَاسًا ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ! فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ لِأُحْرِقَهُمْ بِالنَّارِ, إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: >لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ<. وَكُنْتُ قَاتِلَهُمْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, قَالَ: >مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ<، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- فَقَالَ: وَيْحَ ابْنِ عَبَّاسٍ!.

ترجمہ Book - حدیث 4351

کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان باب: مرتد ، یعنی دین اسلام سے پھر جانے والے کا حکم جناب عکرمہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ؓ نے بعض لوگوں کو جو دین اسلام سے مرتد ہو گئے تھے آگ سے جلوا دیا ۔ سیدنا ابن عباس ؓ کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا کہ میں انہیں آگ سے نہ جلواتا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ” اللہ کے عذاب سے عذاب مت دو ۔ “ میں انہیں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق قتل کرتا ۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ” جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو ۔ “ سیدنا علی ؓ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا : کیا خوب ہیں ابن عباس ! ( یا ابن عباس کی ماں ! ) ۔
تشریح : 1)آگ سے عذاب دینا اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔ کسی بھی شخص کوجائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کاجرم کس قدر بڑا ہو۔ اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے والےکی سزاقتل ہے 2)آیت کریمہ(عربی ہے)(البقرۃ 256) دین جبروا کراہ نہیں۔۔۔۔ کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبرا اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ جہاد وقتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اگرکوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تواسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے تواس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔ اگریہ راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہئےکہ اب واپسی نہ ممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہاور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر نے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔ اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جاسکتاہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتاہے. 1)آگ سے عذاب دینا اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔ کسی بھی شخص کوجائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کاجرم کس قدر بڑا ہو۔ اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے والےکی سزاقتل ہے 2)آیت کریمہ(عربی ہے)(البقرۃ 256) دین جبروا کراہ نہیں۔۔۔۔ کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبرا اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ جہاد وقتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اگرکوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تواسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے تواس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔ اگریہ راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہئےکہ اب واپسی نہ ممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہاور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر نے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔ اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جاسکتاہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتاہے.