Book - حدیث 4348

كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ قِيَامِ السَّاعَةِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ سُلَيْمَانَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: >أَرَأَيْتُكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ!؟ فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ<. قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَ عَنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ! وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ<, يُرِيدُ بِأَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ.

ترجمہ Book - حدیث 4348

کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں باب: قیامت کے آنے کا بیان سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے آخری ایام میں ہمیں ایک دن عشاء کی نماز پڑھائی ۔ جب سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا ” دیکھو کہ تمہاری اس رات میں اب جو کوئی روئے زمین پر موجود ہے سو سال کے بعد ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا ۔ “ سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے بارے میں وہم میں پڑ گئے ہیں ۔ یعنی یہ احادیث جو صحابہ کرام ؓم سو سال کے بارے میں روایت کرتے ہیں ( کہ شاید سو سال بعد قیامت ہی آ جائے گی انہوں نے کہا ) حلانکہ رسول اللہ ﷺ نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ آج جو روئے زمین پر موجود ہے ، وہ باقی نہیں رہے گا ۔ مقصد یہ تھا کہ یہ صدی ختم ہو جائے گی ۔
تشریح : 1 فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔۔۔۔تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔ 2 اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔ 1 فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔۔۔۔تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔ 2 اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔