Book - حدیث 4343

كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ حسن صحيح حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ أَبِي الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ ذَكَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ: >إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ، وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ، وَكَانُوا هَكَذَا<، -وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ- قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِكَ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ-؟! قَالَ: >الْزَمْ بَيْتَكَ، وَامْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْكِرُ، وَعَلَيْكَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِكَ، وَدَعْ عَنْكَ أَمْرَ الْعَامَّةِ<.

ترجمہ Book - حدیث 4343

کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں باب: امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بیان سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” جب تم دیکھو کہ لوگ اپنے عہد و مواعید میں بےوفائی کرنے لگے ہیں ، امانتوں کا معاملہ انتہائی خفیف اور ضعیف ہو گیا ہے ( لوگ خائن بن گئے ہیں ) اور ان کی آپس کی حالت اس طرح ہو گئی ہے ۔ “ اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر ڈال کر دکھایا ( اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں ) عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اٹھ کر آپ کے قریب ہو گیا اور عرض کیا : اللہ مجھے آپ پر فدا ہونے والا بنائے ! میں ان حالات میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” اپنے گھر کو لازم پکڑنا ، اپنی زبان کا مالک بن جانا ( خاموش رہنا ) اور نیکی پر عمل کرنا اور برائی سے بچنا اور اپنی ذات کو فکر کرنا اور عام لوگوں کی فکر چھوڑ دینا ۔ “
تشریح : عہد اور وعدے میں بے وفائی اور امانت میں خیانت۔۔۔۔جہاں نفاق کی علامتیں ہیں وہاں ایامِ فتن کی بھی علامتیں ہیں۔ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان عیوب میں ملوث ہو خواہ حالات کیسے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں۔ جن مشکلات اس قدر بڑھ جائیں کہ انکا مقابلہ انتہائی کٹھن ہو جائے تب دوسروں کی فکر سے آزاد ہو جانے کی اجازت ہے ورنہ اس سے پہلے صاحبِ ایمان کو جائز نہیں کہ دوسروں سے بے فکر ہو کر اپنے میں مگن ہو کر زندگی گزارے۔ عہد اور وعدے میں بے وفائی اور امانت میں خیانت۔۔۔۔جہاں نفاق کی علامتیں ہیں وہاں ایامِ فتن کی بھی علامتیں ہیں۔ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان عیوب میں ملوث ہو خواہ حالات کیسے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں۔ جن مشکلات اس قدر بڑھ جائیں کہ انکا مقابلہ انتہائی کٹھن ہو جائے تب دوسروں کی فکر سے آزاد ہو جانے کی اجازت ہے ورنہ اس سے پہلے صاحبِ ایمان کو جائز نہیں کہ دوسروں سے بے فکر ہو کر اپنے میں مگن ہو کر زندگی گزارے۔