Book - حدیث 4342

كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ, أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: >كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ- أَوْ: يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ زَمَانٌ- يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً, تَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ, قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ، وَأَمَانَاتُهُمْ، وَاخْتَلَفُوا, فَكَانُوا هَكَذَا<. -وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ-. فَقَالُوا: وَكَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: >تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ! وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ! وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ! وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ<. قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رُوِيَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.

ترجمہ Book - حدیث 4342

کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں باب: امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بیان سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تمہارا اس زمانے میں کیا حال ہو گا “ یا فرمایا ” عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ لوگوں کو خوب چھان لیا جائے گا ( اہل ایمان اور اچھے آدمی اٹھا لیے جائیں گے ) اور چھان بورا باقی رہ جائے گا ( بےدین اور رذیل لوگ باقی رہ جائیں گے ) جن کے عہد و مواعید میں بے وفائی اور امانتوں میں خیانت ہو گی اور ان میں اس طرح سے اختلاف ہو جائے گا “ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری کے اندر ڈال کر دکھایا ۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! تو ہم کیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” جو نیکی ہو اس پر عمل پیرا ہونا اور جو برائی ہو اس سے دور رہنا اور خاص اپنی اصلاح کی فکر کرنا اور اپنے عام لوگوں کو چھوڑ دینا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ کے واسطے سے نبی کریم ﷺ سے کئی سندوں سے وارد ہے ۔
تشریح : یہ کیفیت بالکل آخری دور کی ہے جب دین و ا یمان اور خیر و صلاح کی بات پر پر کان نہیں دھرا جائے گ۔ تب یہی حکم ہے کہ انسان اپنی فکر کرے لیکن اس سے پہلے اشاعتِ حق کے لیئے اپنی وسعت بھر افراد اور میدان کی تلاش جاری رکھنا لازمی ہیے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ و آئمہ کی سیرتوں سے نمایاں ہے۔ یہ کیفیت بالکل آخری دور کی ہے جب دین و ا یمان اور خیر و صلاح کی بات پر پر کان نہیں دھرا جائے گ۔ تب یہی حکم ہے کہ انسان اپنی فکر کرے لیکن اس سے پہلے اشاعتِ حق کے لیئے اپنی وسعت بھر افراد اور میدان کی تلاش جاری رکھنا لازمی ہیے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ و آئمہ کی سیرتوں سے نمایاں ہے۔