Book - حدیث 4340

كِتَابُ الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ،- وَقَطَعَ هَنَّادٌ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ، وَفَّاهُ ابْنُ الْعَلَاءِ- فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ, فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ, وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ<.

ترجمہ Book - حدیث 4340

کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں باب: امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بیان سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ” تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دینے اور اس کی اصلاح کی طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ ہاتھ سے اس کی اصلاح کرے ۔ “ ہناد نے یہ حدیث یہیں تک بیان کی ۔ جبکہ ابن علاء نے بقیہ کو یوں پورا کیا ” اگر یہ ہمت نہ ہو تو زبان سے روکے ، اگر زبان سے روکنے کی ہمت نہ ہو تو پھر اپنے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کی سب سے کمزور کیفیت ہے ۔ “
تشریح : گھرانے اور خاندان کے بڑے،علاقے اور شہر کے حاکم،اور ایک مملکت میں حاکمِ اعلیٰ کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیرِ اثر حلقے میں پائی جانی والی برائیوں کا بزورِ قوت قلعہ قمع کرے۔۔۔۔۔۔۔۔اور علماء اور دیگر اہلِ نظر پر واجب ہے کہ برائی کا برائی ہونا واضح کریںاور اس کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اور جو یہ کام بھی نہ کر سکیں تو کم از کم دل سے تو ضرور برا جانیں۔ ورنہ اس کے بعد ایمان کا کو ئی ذرہ باقی نہیں رہتا۔ خیا ل رہے کہ دل سے بر ا جاننے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگو ں کے دل میں عزم موجود ہو کہ اگر آج نہیں تو کل کلاں جب بھی موقع ملا اس برائی کو اکھیڑ کر دم لیں گے۔۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہےاور وہی توفیق دینے والا ہے۔ گھرانے اور خاندان کے بڑے،علاقے اور شہر کے حاکم،اور ایک مملکت میں حاکمِ اعلیٰ کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیرِ اثر حلقے میں پائی جانی والی برائیوں کا بزورِ قوت قلعہ قمع کرے۔۔۔۔۔۔۔۔اور علماء اور دیگر اہلِ نظر پر واجب ہے کہ برائی کا برائی ہونا واضح کریںاور اس کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اور جو یہ کام بھی نہ کر سکیں تو کم از کم دل سے تو ضرور برا جانیں۔ ورنہ اس کے بعد ایمان کا کو ئی ذرہ باقی نہیں رہتا۔ خیا ل رہے کہ دل سے بر ا جاننے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگو ں کے دل میں عزم موجود ہو کہ اگر آج نہیں تو کل کلاں جب بھی موقع ملا اس برائی کو اکھیڑ کر دم لیں گے۔۔۔۔۔اور اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہےاور وہی توفیق دینے والا ہے۔