Book - حدیث 4289

كِتَابُ الْمَهْدِيِّ بابُ الْمَهْدِيِّ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟... بِقِصَّةِ جَيْشِ الْخَسْفِ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ كَارِهًا؟ قَالَ: يُخْسَفُ بِهِمْ, وَلَكِنْ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى نِيَّتِهِ.

ترجمہ Book - حدیث 4289

کتاب: مہدی کا بیان باب: مہدی کا بیان سیدہ ام سلمہ ؓا نے نبی کریم ﷺ سے زمین میں دھنسا دیے جانے والے لشکر کا قصہ بیان کیا ۔ اس میں ہے کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کا کیا حال ہو گا جسے مجبوراً ان کے ساتھ نکلنا پڑا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” وہ زمین میں دھنسا تو دیا جائے گا مگر قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا ۔“
تشریح : 1) اللہ تعالی کا عذاب جب عمومی انداز میں آتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے البتہ انبیاء اور رسل ؑ اور ان کے متبعین کا معاملہ بطور معجزہ اس عموم سے مستثنیٰ ہے۔ 2) اضطراروا کراہ یعنی انسان کو کسی نا پسندیدہ عمل پر انتہائی مجبور کردیا جانا۔۔۔۔شریعت میں ایک معتبر عذر ہے جسکافائدہ اگر دنیا میں حاصل نہ ہو سکے تو انشاءاللہ قیامت کو ضرور ملے گا۔ 3) اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ 1) اللہ تعالی کا عذاب جب عمومی انداز میں آتا ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے البتہ انبیاء اور رسل ؑ اور ان کے متبعین کا معاملہ بطور معجزہ اس عموم سے مستثنیٰ ہے۔ 2) اضطراروا کراہ یعنی انسان کو کسی نا پسندیدہ عمل پر انتہائی مجبور کردیا جانا۔۔۔۔شریعت میں ایک معتبر عذر ہے جسکافائدہ اگر دنیا میں حاصل نہ ہو سکے تو انشاءاللہ قیامت کو ضرور ملے گا۔ 3) اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔