Book - حدیث 4281

كِتَابُ الْمَهْدِيِّ بابُ الْمَهْدِيِّ صحيح دون قوله فلما رجع حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ: حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ... بِهَذَا الْحَدِيثِ. زَادَ: فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ، أَتَتْهُ قُرَيْشٌ، فَقَالُوا: ثُمَّ يَكُونُ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ يَكُونُ الْهَرْجُ.

ترجمہ Book - حدیث 4281

کتاب: مہدی کا بیان باب: مہدی کا بیان اسود بن سعید ہمدانی نے سیدنا جابر بن سمرہ ؓ سے یہ مذکورہ حدیث بیان کی ، اس میں مزید ہے کہ جب آپ اپنے گھر واپس آئے تو قریشی لوگ آپ کے پاس آئے اور پوچھا کہ پھر کیا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا ” قتل و غارت “ ۔
تشریح : اس روایت کے صحیح بخاری کتاب الاحکام میں الفاظ یہ ہیں(يكون اثنا عشر امير كلهم من قريش)(حديث٧٢٢٢ ٧٢٢٣) صحیح مسلم کتاب الامارہ میں ہیں لوگوں کا معا ملہ جاری و ساری رہے گا۔ اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : اسلام غالب رہے گا طبران(ی6 / 415 ) کی روایت ہے میری امت کا معاملہ صالح اور عمدہ رہے گا۔ اس مضموں کی روایات میں اجمال ہے اس کی حقیقی تعبیر اللہ ہی بہتر جانتا ہے تمام علمائے محدثین نے مختلف انداز میں اس کی توجیح بیان کی ہے فتح الباری کتاب الا حکام میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک تو جیح یہ کی گئی ہے کہ اس میں دو احتمال ہیں ایک احتمال ہے کہ یہ خلفا آپؑ کے متصل بعد ہونگے۔ دوسرا یہ ہی کہ یہ قیامت تک کی مدت میں آئیں گے اور یہ خاص خلفاء ہو نگے جن پر لوگوں کا اتفاق ہو گا اور اسلام بھی کامل طور پر نافذ ہو کر اپنی برکات ظاہر کرے گا۔حافظ ابنِ حجرؒ کا رجحان یہ ہے کہ یہ خلفا ء آپؑ کے متصل بعد ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لےکر عبد اللہ بن عبدالعزیزؒ(101 ہجری) تک کل چودہ خلفا ء ہو ئے ہیں۔ ان میں سے معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم کی ولایئت نہ صحیح تھی نہ طویل المدت۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حالات احوال از حد متغر ہو گئے اور ان پر خیر القرون میں سے پہلی قرن(صدی) بھی ختم ہو گئی۔ اس دور میں حضرت حسن بن علی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور میں اعتراض آتا ہےکہ ان پر اتفاق نہ تھا اگرچہ ان کی ولایئت بروحق ہے مگر سیدنا حسن چھے ماہ بعد ہی خلافت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اور جناب عبدا للہ بن زبیر شہید کت دیئے گئے تو معاملہ فریقِ ثانی پر مجتمع ہو گیا۔تو با قیوں کے معاملے میں یہ مدت معمو لی اور غیر معتبر ہے لیکن اسلام من حیث المجموع غالب،عزیز اور امت کا معا ملہ صالح رہا ۔ یہاں ایک اشکال اور سامنے آتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک اور حدیط میں فرما یا ہے کہ خلافت 30 سال تک رہے گی یہ بات بظاہر زیرِ بحث حدیث کے خلاف ہے اور لوگ بھی اس سے ستدلال کرتے ہو ئے دعویٰ کرتے ہیں کہ 30 سال کے بعد کی خلافتیں صحیح نہیں ہیں یا وہ بادشاہتیں ہیں لیکن یہ بات صحیح نہی ہے۔ نہ یہ دونوں حدیثیں باہم متعارض ہیں اور نہ مذکو رہ دعویٰ ہی صحیح ہے۔ حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں وہ یہ ہیں خلافتِ نبوت 30 سال رہے گی پھر بادشاہی اللہ تعا لی جسکو چاہے گا دے دیگا۔ (سنن ابو داؤد: حدیث 4646) اسکا مطلب یہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوت 20 سال تک رہے گی لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں میں منہاج نبوت سے کچھ انحراف آجائے گا ورنہ خلافت بھی رہے گی اور اسلام بھی قائم و غالب رہے گا اور ایس ہی ہوا۔ (اس کی مزید تفصیل آگےحدیث:4646 کے فوائد میں ملاحظہ فرمائیں) اس روایت کے صحیح بخاری کتاب الاحکام میں الفاظ یہ ہیں(يكون اثنا عشر امير كلهم من قريش)(حديث٧٢٢٢ ٧٢٢٣) صحیح مسلم کتاب الامارہ میں ہیں لوگوں کا معا ملہ جاری و ساری رہے گا۔ اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں : اسلام غالب رہے گا طبران(ی6 / 415 ) کی روایت ہے میری امت کا معاملہ صالح اور عمدہ رہے گا۔ اس مضموں کی روایات میں اجمال ہے اس کی حقیقی تعبیر اللہ ہی بہتر جانتا ہے تمام علمائے محدثین نے مختلف انداز میں اس کی توجیح بیان کی ہے فتح الباری کتاب الا حکام میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک تو جیح یہ کی گئی ہے کہ اس میں دو احتمال ہیں ایک احتمال ہے کہ یہ خلفا آپؑ کے متصل بعد ہونگے۔ دوسرا یہ ہی کہ یہ قیامت تک کی مدت میں آئیں گے اور یہ خاص خلفاء ہو نگے جن پر لوگوں کا اتفاق ہو گا اور اسلام بھی کامل طور پر نافذ ہو کر اپنی برکات ظاہر کرے گا۔حافظ ابنِ حجرؒ کا رجحان یہ ہے کہ یہ خلفا ء آپؑ کے متصل بعد ہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لےکر عبد اللہ بن عبدالعزیزؒ(101 ہجری) تک کل چودہ خلفا ء ہو ئے ہیں۔ ان میں سے معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم کی ولایئت نہ صحیح تھی نہ طویل المدت۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حالات احوال از حد متغر ہو گئے اور ان پر خیر القرون میں سے پہلی قرن(صدی) بھی ختم ہو گئی۔ اس دور میں حضرت حسن بن علی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دور میں اعتراض آتا ہےکہ ان پر اتفاق نہ تھا اگرچہ ان کی ولایئت بروحق ہے مگر سیدنا حسن چھے ماہ بعد ہی خلافت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اور جناب عبدا للہ بن زبیر شہید کت دیئے گئے تو معاملہ فریقِ ثانی پر مجتمع ہو گیا۔تو با قیوں کے معاملے میں یہ مدت معمو لی اور غیر معتبر ہے لیکن اسلام من حیث المجموع غالب،عزیز اور امت کا معا ملہ صالح رہا ۔ یہاں ایک اشکال اور سامنے آتا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک اور حدیط میں فرما یا ہے کہ خلافت 30 سال تک رہے گی یہ بات بظاہر زیرِ بحث حدیث کے خلاف ہے اور لوگ بھی اس سے ستدلال کرتے ہو ئے دعویٰ کرتے ہیں کہ 30 سال کے بعد کی خلافتیں صحیح نہیں ہیں یا وہ بادشاہتیں ہیں لیکن یہ بات صحیح نہی ہے۔ نہ یہ دونوں حدیثیں باہم متعارض ہیں اور نہ مذکو رہ دعویٰ ہی صحیح ہے۔ حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں وہ یہ ہیں خلافتِ نبوت 30 سال رہے گی پھر بادشاہی اللہ تعا لی جسکو چاہے گا دے دیگا۔ (سنن ابو داؤد: حدیث 4646) اسکا مطلب یہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوت 20 سال تک رہے گی لیکن بعد میں قائم ہونے والی خلافتوں میں منہاج نبوت سے کچھ انحراف آجائے گا ورنہ خلافت بھی رہے گی اور اسلام بھی قائم و غالب رہے گا اور ایس ہی ہوا۔ (اس کی مزید تفصیل آگےحدیث:4646 کے فوائد میں ملاحظہ فرمائیں)