Book - حدیث 4276

كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابٌ فِي تَعْظِيمِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ حسن مقطوع حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ فِي قَوْلِهِ: {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ}[النساء: 93]، قَالَ: هِيَ جَزَاؤُهُ, فَإِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنْهُ فَعَلَ.

ترجمہ Book - حدیث 4276

کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان باب: کسی مومن کو قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے جناب ابومجلز سے مروی ہے کہ «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ” قاتل عمد کی سزا یہی ہے کہ ہمیشہ جہنم میں رہے ۔ “ اور اگر اللہ اسے معاف کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔
تشریح : قاتل عمد کے بارے میں وارد شدہ آیات و احادیث کی روشنی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اور کئی علما کہتے ہیں کہ اس کی توبہ قبول نہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ تاہم سورۃ فرقان اور دیگر آیات توبہ عام ہیں اس لیئے یہ آدمی بھی اگر اخلاص سے توبہ کرے تو قبو لیت کی امید ہے اور پہلی بات تب ہے جب وہ بغیر توبہ کیےمر جائے اور اللہ عزوجل نے معاف نہ فرمایا تو۔ اور خلود سے مراد یہاں لمبی مدت ہے ہمیشہ ہمیشہ نہیں۔ کیونکہ یہ سزا صرف مشرکین اور کافروں کے لیئے مخصوس ہے۔ ارشادِ باری تعا لٰی ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ معاف کر سے گا جس کے لیئے چاہے گا۔ اور صحیح حدیث ہے کہ ایک اسرائیلی نے سو آدمی قتل کر دیئے۔ تو ایک عالم نے کہا: کون ہے جو تمھارے اور تمھاری توبہ کت درمیان حائل ہو سکے۔۔۔الخ(صحیح البخاری)احادیث الانبیاء ، حدیث : 3470، وصحیح مسلم ، قاتل عمد کے بارے میں وارد شدہ آیات و احادیث کی روشنی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ اور کئی علما کہتے ہیں کہ اس کی توبہ قبول نہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ تاہم سورۃ فرقان اور دیگر آیات توبہ عام ہیں اس لیئے یہ آدمی بھی اگر اخلاص سے توبہ کرے تو قبو لیت کی امید ہے اور پہلی بات تب ہے جب وہ بغیر توبہ کیےمر جائے اور اللہ عزوجل نے معاف نہ فرمایا تو۔ اور خلود سے مراد یہاں لمبی مدت ہے ہمیشہ ہمیشہ نہیں۔ کیونکہ یہ سزا صرف مشرکین اور کافروں کے لیئے مخصوس ہے۔ ارشادِ باری تعا لٰی ہے اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں فرماتا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ معاف کر سے گا جس کے لیئے چاہے گا۔ اور صحیح حدیث ہے کہ ایک اسرائیلی نے سو آدمی قتل کر دیئے۔ تو ایک عالم نے کہا: کون ہے جو تمھارے اور تمھاری توبہ کت درمیان حائل ہو سکے۔۔۔الخ(صحیح البخاری)احادیث الانبیاء ، حدیث : 3470، وصحیح مسلم ،