Book - حدیث 4244

كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابُ ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا حسن حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْكُوفَةَ، فِي زَمَنِ فُتِحَتْ تُسْتَرُ أَجْلُبُ مِنْهَا بِغَالًا, فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا صَدْعٌ مِنَ الرِّجَالِ، وَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ تَعْرِفُ- إِذَا رَأَيْتَهُ- أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَتَجَهَّمَنِي الْقَوْمُ، وَقَالُوا: أَمَا تَعْرِفُ هَذَا؟ هَذَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، فَأَحْدَقَهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ! فَقَالَ: إِنِّي أَرَى الَّذِي تُنْكِرُونَ, إِنِّي قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ هَذَا الْخَيْرَ الَّذِي أَعْطَانَا اللَّهُ, أَيَكُونُ بَعْدَهُ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ؟ قَالَ: >نَعَمْ<، قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: >السَّيْفُ<. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ثُمَّ مَاذَا يَكُونُ؟ قَالَ: >إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِي الْأَرْضِ، فَضَرَبَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ, فَأَطِعْهُ، وَإِلَّا, فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ، فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ، وَحُطَّ وِزْرُهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وَحُطَّ أَجْرُهُ, قَالَ قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ هِيَ قِيَامُ السَّاعَةِ.

ترجمہ Book - حدیث 4244

کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان باب: فتنوں کا بیان اور ان کے دلائل سبیع بن خالد نے بیان کیا کہ جس زمانے میں ( خوزستان میں ) تستر کا علاقہ فتح ہوا میں کوفہ آیا ۔ میں یہاں سے خچر حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ میں مسجد میں چلا گیا تو میں نے وہاں چند آدمی دیکھے جن کی قامت و جسامت متوسط قسم کی تھی ‘ اور ( ساتھ ہی ) ایک اور آدمی بھی بیٹھا ہوا تھا ‘ جسے دیکھ کر آپ کہہ سکتے تھے کہ یہ حجازی آدمی ہے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے ناپسندیدگی کے سے انداز سے دیکھا اور کہا : کیا تم انہیں نہیں جانتے ہو ؟ یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی حذیفہ بن یمان ؓ ہیں ۔ پھر حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ دیگر صحابہ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے اور میں آپ ﷺ سے شر کے متعلق سوال کیا کرتا تھا ( کہ کہیں اس میں ملوث نہ ہو جاؤں ) تو ان لوگوں نے ان کو غور سے دیکھا ۔ سیدنا حذیفہ ؓ نے کہا : میں خوب سمجھتا ہوں جو تمہیں برا لگتا ہے ۔ میں نے عرض کیا تھا : اے اللہ کے رسول ! یہ خیر جو اللہ نے ہمیں عنایت فرمائی ہے کیا اس کے بعد شر ہو گا جیسے کہ اس سے پہلے تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” ہاں ۔ “ میں نے عرض کیا تو اس سے بچاؤ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” تلوار ۔ “ قتیبہ نے اپنی روایت میں کہا : میں ( حذیفہ ؓ ) نے عرض کیا : کیا تلوار سے کوئی فائدہ ہو گا ؟ فرمایا ” ہاں ۔ “ میں عرض کیا کہ کیا ؟ فرمایا ” صلح ہو گی جس میں ( بباطن ) خیانت ہو گی دھوکا ہو گا ۔ “ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اس کے بعد کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” اگر زمین میں اللہ کا کوئی خلیفہ ہو اور وہ تمہاری کمر پر مارے اور تمہار مال چھین لے تب بھی اس کی اطاعت کرنا ۔ ورنہ اس حال میں مر جانا کہ تم ( جنگل میں ) کسی درخت کی جڑ چبا کر گزارہ کرنے والے ہو ۔ “ میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” دجال آئے گا ‘ اس کے پاس نہر ہو گی اور آگ ۔ جو اس کی آگ میں پڑا اس کا اجر ثابت ہوا اور اس کے گناہ ختم ہوئے اور جو اس کی نہر میں پڑا اس کے گناہ ثابت ہوئے اور اجر ضائع ہو گئے ۔ “ میں نے عرض کیا : پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” پھر قیامت آ جائے گی ۔ “
تشریح : ) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔ عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔ 2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔ 3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔ چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔ 4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔ اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔ 5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔ 6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہونگی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔ ) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔ عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔ 2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔ 3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔ چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔ 4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔ اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔ 5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔ 6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہونگی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔