Book - حدیث 4243

كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابُ ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا ضعیف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فَرُّوخَ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، أَخْبَرَنِي ابْنٌ لِقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ: >وَاللَّهِ مَا أَدْرِي, أَنَسِيَ أَصْحَابِي أَمْ تَنَاسَوْا! وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَائِدِ فِتْنَةٍ إِلَى أَنْ تَنْقَضِيَ الدُّنْيَا- يَبْلُغُ مَنْ مَعَهُ ثَلَاثَ مِائَةٍ فَصَاعِدًا-, إِلَّا قَدْ سَمَّاهُ لَنَا بِاسْمِهِ، وَاسْمِ أَبِيهِ، وَاسْمِ قَبِيلَتِهِ.

ترجمہ Book - حدیث 4243

کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان باب: فتنوں کا بیان اور ان کے دلائل سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کے میرے ساتھی حقیقتاً بھول گئے ہیں یا بھولے بنے ہوئے ہیں ۔ اللہ کی قسم ! دنیا ختم ہونے تک آنے والے فتنوں کے قائدین جن کے ساتھ تین سو یا اس سے زیادہ لوگ ہوں گے ‘ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو نہیں چھوڑا ہے ۔ آپ ﷺ نے ان کے نام ‘ ان کے باپوں کے نام اور ان کے قبیلوں تک کے نام بتا دیے ہیں ۔
تشریح : اس حدیث سے اہلِ بدعت نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب تھے ۔ انکا یہ دعویٰ انکی جہالت کی دلیل ہے۔ علم الغیب سراسر اللہ عزوجل کی خاس صفت ہے۔ رسول اللہﷺ جو کچھ بھی غیب کی خبریں دیتے تھے وہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے وحی ہوتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے : ( وہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے۔۔۔ (الجن26،27) ملا علی قاری ؒ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں انبیاء کرام کچھ غیب نہیں جانتے سوائے اس کے جو اللہ تعالی انہیں خبر دے۔ اور علمائے احناف نےصراحت کی ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کے عالم الغیب ہو نے کا عقیدہ رکھےوہ کافر ہے۔کیونکہ یہ بات اللہ عزوجل کے فرمان کے خلاف ہے۔ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں اور زمیں والوں میں سے سوائے اللہ کے کو ئی غیب نہیں جانتا۔ (النمل: 65) اور بعض نے صراحت کی ہے کہ باطل کو جھٹلانا دین کے ضروری امور میں سے ہے۔ چنانچہ علم الغیب صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیئے خاص ہے اور بہت سی نصوص اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں مثلاََ اور اللہ ہی کے پاس تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کو ئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے، اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور دریاؤں میں ہے۔۔۔۔۔۔ (الا نعام 59)۔ بلا شبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کو ئی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا نہ کسی جان کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا بلا شبہ اللہ ہی کامل علم اور صحیح خبروں والا ہے۔ (لقمان 34)۔ الغرض اللہ کے سوا کسی اور کے لیئے جائز نہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اسے علمِغیب سے موصوف مانا جائے۔ اور یہی وجہ ہے جب نبیﷺ کے سامنے وہ ابیات پڑھے گئے جن میں یہ مضمون تھا کہ ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے۔۔۔۔۔ تو آپؐ نے فورََ ا اُن کو روک دیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور پہلے والی بات کہو ۔ المختصر کسی صورت جائز نہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو عالم الغیب کہا جائے۔ غیب کی جتنی بھی خبریں آپ ؐ نے دیں ہیں وہ سب اللہ تعالی کے اطلاع کرنے سے دی ہیں۔ غیب پر مطلع ہونےہونے کا وحی اور الہام کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔ علاوہ ازیں بحر الرائق میں ہے کہ اگر کو ئی عقد نکاح میں یوں کہےکہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی گوا ہی سے یہ نکاح ہوا،تو نکاح نہیں ہو گا۔ بلکہ ایسا آدمی کافر ہو گا کیونکہ اس نے نبیﷺ کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھا۔ اس حدیث سے اہلِ بدعت نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب تھے ۔ انکا یہ دعویٰ انکی جہالت کی دلیل ہے۔ علم الغیب سراسر اللہ عزوجل کی خاس صفت ہے۔ رسول اللہﷺ جو کچھ بھی غیب کی خبریں دیتے تھے وہ سب اللہ عزوجل کی طرف سے وحی ہوتا تھا۔ قرآن مجید میں ہے : ( وہ غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے۔۔۔ (الجن26،27) ملا علی قاری ؒ شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں انبیاء کرام کچھ غیب نہیں جانتے سوائے اس کے جو اللہ تعالی انہیں خبر دے۔ اور علمائے احناف نےصراحت کی ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کے عالم الغیب ہو نے کا عقیدہ رکھےوہ کافر ہے۔کیونکہ یہ بات اللہ عزوجل کے فرمان کے خلاف ہے۔ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں اور زمیں والوں میں سے سوائے اللہ کے کو ئی غیب نہیں جانتا۔ (النمل: 65) اور بعض نے صراحت کی ہے کہ باطل کو جھٹلانا دین کے ضروری امور میں سے ہے۔ چنانچہ علم الغیب صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لیئے خاص ہے اور بہت سی نصوص اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں مثلاََ اور اللہ ہی کے پاس تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کو ئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے، اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور دریاؤں میں ہے۔۔۔۔۔۔ (الا نعام 59)۔ بلا شبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم وہی بارش برساتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کو ئی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا نہ کسی جان کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا بلا شبہ اللہ ہی کامل علم اور صحیح خبروں والا ہے۔ (لقمان 34)۔ الغرض اللہ کے سوا کسی اور کے لیئے جائز نہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اسے علمِغیب سے موصوف مانا جائے۔ اور یہی وجہ ہے جب نبیﷺ کے سامنے وہ ابیات پڑھے گئے جن میں یہ مضمون تھا کہ ہم میں وہ نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے۔۔۔۔۔ تو آپؐ نے فورََ ا اُن کو روک دیا اور فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور پہلے والی بات کہو ۔ المختصر کسی صورت جائز نہیں کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو عالم الغیب کہا جائے۔ غیب کی جتنی بھی خبریں آپ ؐ نے دیں ہیں وہ سب اللہ تعالی کے اطلاع کرنے سے دی ہیں۔ غیب پر مطلع ہونےہونے کا وحی اور الہام کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔ علاوہ ازیں بحر الرائق میں ہے کہ اگر کو ئی عقد نکاح میں یوں کہےکہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی گوا ہی سے یہ نکاح ہوا،تو نکاح نہیں ہو گا۔ بلکہ ایسا آدمی کافر ہو گا کیونکہ اس نے نبیﷺ کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھا۔