Book - حدیث 424

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ فِي وَقْتِ الصُّبْحِ حسن صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِأُجُورِكُمْ أَوْ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ

ترجمہ Book - حدیث 424

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: نماز فجر کا وقت جناب محمود بن لبید ، سیدنا رافع بن خدیج ؓ سے راوی ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” صبح طلوع ہونے پر ( ہی ) صبح کی نماز پڑھا کرو ۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے ۔ “
تشریح : کچھ لوگ اس حدیث کاترجمہ یوں کرتے ہیں کہ’’ سفیدی اورروشنی اور روشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔،، مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام کامعمول ثابت ہےکہ وہ سب فجر کی نماز ( غلس ) یعنی صبح کےاندھیرے ہی میں پڑھتے تھے ۔حضرت عمر ، حضرت علی ، اور حضرت معاویہ پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے ۔ نیز لغوی طور پر ( أصبح الرجل ) کامعنی ہے( دخل الصبح ) ’’ یعنی صبح کےوقت میں داخل ہوا،،۔ یہ بھی کہا گیا ہےکہ اس ارشاد کاپس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے تواس حکم سےان کی اصلاح فرمائی گئی ۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت ( اسفروا بالصبح ) بالمعنی روایت ہوئی ہے۔اورایک توجیہ یہ بھی ہےکہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سےمتعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کےنمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتاہے ۔اورعلامہ طحاوی نےیہ کہا ہےکہ اس سے مراد ہے’’ فجر کی نماز میں قراءت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہوجائے ۔،، بہرحال افضل یہی ہےکہ کہ فجر صادق کےبعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے ۔او راس کے بعد اس کاوقت طلوع آفتاب سےپہلے تک رہتا ہے۔(عون المعبود ۔ خطابی ) کچھ لوگ اس حدیث کاترجمہ یوں کرتے ہیں کہ’’ سفیدی اورروشنی اور روشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔،، مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام کامعمول ثابت ہےکہ وہ سب فجر کی نماز ( غلس ) یعنی صبح کےاندھیرے ہی میں پڑھتے تھے ۔حضرت عمر ، حضرت علی ، اور حضرت معاویہ پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے ۔ نیز لغوی طور پر ( أصبح الرجل ) کامعنی ہے( دخل الصبح ) ’’ یعنی صبح کےوقت میں داخل ہوا،،۔ یہ بھی کہا گیا ہےکہ اس ارشاد کاپس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے تواس حکم سےان کی اصلاح فرمائی گئی ۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت ( اسفروا بالصبح ) بالمعنی روایت ہوئی ہے۔اورایک توجیہ یہ بھی ہےکہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سےمتعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کےنمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتاہے ۔اورعلامہ طحاوی نےیہ کہا ہےکہ اس سے مراد ہے’’ فجر کی نماز میں قراءت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہوجائے ۔،، بہرحال افضل یہی ہےکہ کہ فجر صادق کےبعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے ۔او راس کے بعد اس کاوقت طلوع آفتاب سےپہلے تک رہتا ہے۔(عون المعبود ۔ خطابی )