كِتَابُ التَّرَجُّلِ بَابٌ فِي صِلَةِ الشَّعْرِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْوَاصِلَاتِ، و قَالَ عُثْمَانُ: وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، ثُمَّ اتَّفَقَا وَالْمُتَفَلِّجَاتِ، لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَعْقُوبَ، زَادَ عُثْمَانُ كَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ، ثُمَّ اتَّفَقَا فَأَتَتْهُ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ؟! قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْوَاصِلَاتِ، و قَالَ عُثْمَانُ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، ثُمَّ اتَّفَقَا وَالْمُتَفَلِّجَاتِ قَالَ عُثْمَانُ لِلْحُسْنِ: الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى؟! قَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ لَوْحَيِ الْمُصْحَفِ! فَمَا وَجَدْتُهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا}[الحشر: 7]، قَالَتْ: إِنِّي أَرَى بَعْضَ هَذَا عَلَى امْرَأَتِكَ! قَالَ: فَادْخُلِي فَانْظُرِي، فَدَخَلَتْ، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتِ؟ وقَالَ عُثْمَانُ: فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ؟ فَقَالَ: لَوْ كَانَ ذَلِكَ مَا كَانَتْ مَعَنَا.
کتاب: بالوں اور کنگھی چوٹی کے احکام و مسائل
باب: بالوں کو مزید بال لگا کر لمبا کرنا
( امام ابوداؤد ؓ نے بواسطہ محمد بن عیسیٰ اور عثمان بن ابی شیبہ روایت کیا ) سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا : ” لعنت کی ہے اللہ نے ان عورتوں پر جو جسم گودیں اور گدوائیں ۔ “ محمد بن عیسیٰ نے کہا : اور جو بال جوڑ کر لمبے کریں ۔ عثمان نے کہا : اور جو چہرے کے بال اکھیڑیں ، پھر دونوں شیخ روایت میں متفق ہیں ۔ اور جو حسن کی خاطر دانتوں میں خلا کروائیں ‘ اللہ کی خلقت کو تبدیل کریں ۔ یہ بات بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا ۔ عثمان نے یہ اضافہ بیان کیا اور اس نے پورا قرآن پڑھ رکھا تھا ۔ پھر دونوں شیخ روایت میں متفق ہیں ، وہ خاتون سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئی اور کہا : مجھے آپ سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو جسم گودیں اور گدوائیں ۔ محمد نے کہا : اور جو بال جوڑ کر لمبے کریں ۔ اور عثمان نے کہا : اور جو چہرے کے بال اکھیڑیں ۔ پھر دونوں روایت میں متفق ہیں ۔ اور جو دانتوں میں خلا کروائیں ۔ عثمان نے کہا : زینت کی خاطر ‘ اللہ کی خلقت کو بدلنے والیاں ہیں ۔ تو سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا : مجھے کیا ہوا کہ میں ان پر لعنت نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی وارد ہے ۔ وہ بولی تحقیق میں پورا قرآن جو دو گتوں کے درمیان میں ہے پڑھا ہے مجھے تو اس میں یہ حکم نہیں ملا ہے ‘ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر تو نے پڑھا ہوتا تو یقیناً پا لیتی ۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی «و آتاكم الرسول فخذوه و نهاكم عنه فانتهوا» ” اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ ۔ “ عورت نے کہا : میں ان میں سے کئی چیزیں تمہارے بیوی پر بھی دیکھتی ہوں ۔ انہوں نے کہا : اندر جاؤ اور دیکھ لو ۔ چنانچہ وہ اندر گئی اور پھر باہر آ گئی ۔ انہوں نے پوچھا کیا دیکھا ہے ؟ عثمان نے کہا ، عورت نے کہا : میں نے کچھ نہیں دیکھا ‘ تو سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : اگر یہ ہوتا تو ہمارے ساتھ نہ ہوتی ۔
تشریح :
1) مذکو رہ اُمور باعثِ لعنت اور کبیرہ گناہ ہیں ان سے بچنا واجب اور ان کا ارتکاب حرام ہے۔
2) دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کو لوگ انتہائی باریک نظر سے دیکھا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے قول کے خود اولین عامل اور نمونہ ہوں بلا شبہ اس کے بغیر ان کی دعوت غیر معیاری ہو جاتی ہے اس لیئے مبلغ اور داعی حضرات و خواتین کو خود باعمل ہو نا چاہیئے ۔ اور اُنہیں ہمیشہ اس سخت ترین قرآنی وعید کو مدِ نظر رکھنا چاہیئے (آیت)
3) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس معیار پر پو رے اترتے تھے اور انہوں نے اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : اگر ان کی بیوی خلافِ شریعت کاموں کی مرتکب ہوتی تو ان کے اہل میں نہ ہو تی
4) سورۃ حشر کی آیت 7 پو ری شریعت کی جا مع آیت ہے اور حجیت حدیث کی جامع دلیل بھی۔
1) مذکو رہ اُمور باعثِ لعنت اور کبیرہ گناہ ہیں ان سے بچنا واجب اور ان کا ارتکاب حرام ہے۔
2) دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کو لوگ انتہائی باریک نظر سے دیکھا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے قول کے خود اولین عامل اور نمونہ ہوں بلا شبہ اس کے بغیر ان کی دعوت غیر معیاری ہو جاتی ہے اس لیئے مبلغ اور داعی حضرات و خواتین کو خود باعمل ہو نا چاہیئے ۔ اور اُنہیں ہمیشہ اس سخت ترین قرآنی وعید کو مدِ نظر رکھنا چاہیئے (آیت)
3) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس معیار پر پو رے اترتے تھے اور انہوں نے اپنے ایمانی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : اگر ان کی بیوی خلافِ شریعت کاموں کی مرتکب ہوتی تو ان کے اہل میں نہ ہو تی
4) سورۃ حشر کی آیت 7 پو ری شریعت کی جا مع آیت ہے اور حجیت حدیث کی جامع دلیل بھی۔