Book - حدیث 4131

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابٌ فِي جُلُودِ النُّمُورِ وَالسِّبَاعِ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ بَحِيرٍ عَنْ خَالِدٍ قَالَ وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ أَتَرَاهَا مُصِيبَةً قَالَ لَهُ وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ هَذَا مِنِّي وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ فَقَالَ الْأَسَدِيُّ جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فَقَالَ الْمِقْدَامُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ ثُمَّ قَالَ يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي قَالَ أَفْعَلُ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ قَالَ خَالِدٌ فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ قَالَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ فَقَالَ أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ

ترجمہ Book - حدیث 4131

کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل باب: چیتوں اور درندوں کے چمڑوں کا بیان جناب خالد بن معدان سے روایت ہے کہ سیدنا مقدام بن معدیکرب ، عمرو بن اسود اور قبیلہ بنو اسد کا ایک آدمی جو اہل قنسرین میں سے تھا ، سیدنا معاویہ بن ابوسفیان ؓ کے ہاں آئے ۔ معاویہ نے مقدام سے کہا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ حسن بن علی ؓ وفات پا گئے ہیں ؟ تو مقدام نے «انا لله وانا اليه راجعون» پڑھا ۔ تو ایک آدمی نے ان سے کہا : کیا تم اس کو مصیبت سمجھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : میں ان کی وفات کو مصیبت کیوں نہ سمجھوں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنی گود میں بٹھایا تھا اور کہا تھا : ” یہ ( حسن ) مجھ سے ہے اور حسین علی سے ! “ اسدی آدمی نے کہا : «جمرة أطفأها الله عز وجل» ۔ مقدام نے کہا : مگر ( میں تو ایسی بات نہیں کہتا جو اس اسدی نے کہی ہے ) میں آج تمہیں غصہ دلا کے رہوں گا اور وہ کچھ سناؤں گا جو تمہیں برا لگے ۔ پھر کہا : اے معاویہ ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کرنا اور اگر غلط کہوں تو تردید کر دینا ۔ معاویہ نے کہا : ایسے ہی کروں گا ۔ مقدام نے کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے ؟ کہا ہاں ۔ مقدام نے پھر کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا تمہیں خبر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے روکا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں سیدنا مقدام نے کہا : میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے درندوں کی کھالیں پہننے اور ان پر سوار ہونے سے روکا ہے ؟ کہا ہاں ۔ مقدام نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے یہ سب کچھ تمہارے گھر میں دیکھا ہے ۔ اے معاویہ ! اس پر معاویہ نے کہا : اے مقدام ! مجھے معلوم تھا کہ میں تجھ سے ہرگز نہیں بچ سکوں گا ۔ خالد بن معدان نے بیان کیا کہ پھر معاویہ ؓ نے مقدام کے لیے اس قدر انعام کا حکم دیا جو اس کے دوسرے دو ساتھیوں کے لیے نہیں تھا اور ان کے بیٹے کے لیے دو سو والوں میں حصہ مقرر کر دیا ۔ چنانچہ سیدنا مقدام ؓ نے اسے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا ۔ مگر اسدی نے جو وصول کیا اس میں سے کسی کو کچھ نہ دیا ۔ معاویہ کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : مقدام کھلے ہاتھ کے سخی آدمی ہیں اور اسدی اپنے مال کی خوب حفاظت کرنے والا ہے ۔
تشریح : 1 : صحابہ کرام رضہ اللہ حق بات کہنے میں بٹرجری تھے حضرت مقدام رضی اللہ کو حضرت معاویہ کی امارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بے دھڑک حق بات کہی ۔ 2 :اس مکالمے کے شروع میں جو آیا ہے ایک آدمی نے کہا اس کے قائل شاید حضرت معاویہ ہی ہوں جسے اوبا مبہم رکھا گیا ہے ۔ 3 : بنو امیہ اور اہل بیت کے خاندانوں میں سیاسی امور میں اک کے خا ص رحجانات تھے ،یہ تاریخ اسلام کا انتہائی پریشان کن دور تھا جو گزر گیا ۔ اب تمام صحابہ کرام رضہ اللہ کے لئے دعا گو ہیں اور کسی کے متعلق اپنے دل میں کو ئی بغض نہیں رکھتے ۔ ایک مورخ کو حسب وقائع کسی بھی جانب میلان کا حق حاصل ہے مگر خیال رہے کہ دوسری جانب بھی جلیل لقدرصحابہ ہیں ۔ 4 : حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق جو ذکر ہو ان کے گھر میں ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال ہوتی تھیں تو شاید فرامین رسول ؐ کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے ۔ 1 : صحابہ کرام رضہ اللہ حق بات کہنے میں بٹرجری تھے حضرت مقدام رضی اللہ کو حضرت معاویہ کی امارت سے کوئی خوف نہ آیا اور بے دھڑک حق بات کہی ۔ 2 :اس مکالمے کے شروع میں جو آیا ہے ایک آدمی نے کہا اس کے قائل شاید حضرت معاویہ ہی ہوں جسے اوبا مبہم رکھا گیا ہے ۔ 3 : بنو امیہ اور اہل بیت کے خاندانوں میں سیاسی امور میں اک کے خا ص رحجانات تھے ،یہ تاریخ اسلام کا انتہائی پریشان کن دور تھا جو گزر گیا ۔ اب تمام صحابہ کرام رضہ اللہ کے لئے دعا گو ہیں اور کسی کے متعلق اپنے دل میں کو ئی بغض نہیں رکھتے ۔ ایک مورخ کو حسب وقائع کسی بھی جانب میلان کا حق حاصل ہے مگر خیال رہے کہ دوسری جانب بھی جلیل لقدرصحابہ ہیں ۔ 4 : حضرت معاویہ رضی اللہ کے متعلق جو ذکر ہو ان کے گھر میں ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال ہوتی تھیں تو شاید فرامین رسول ؐ کی کوئی تاویل کرتے ہوں گے ۔