كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابٌ فِيمَا تُبْدِي الْمَرْأَةُ مِنْ زِينَتِهَا صحیح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ وَمُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خَالِدٍ قَالَ يَعْقُوبُ ابْنُ دُرَيْكٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ يَا أَسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا مُرْسَلٌ خَالِدُ بْنُ دُرَيْكٍ لَمْ يُدْرِكْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
باب: عورت اپنی زینت سے کیا کچھ کھلا رکھ سکتی ہے ؟
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ ( ان کی بہن ) اسماء بنت ابوبکر ؓا رسول اللہ ﷺ کے ہاں آئیں اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے اپنا منہ موڑ لیا اور فرمایا ” اے اسماء ! بچی جب جوان ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس سے کچھ نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے اور آپ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے ۔ خالد بن دریک نے سیدہ عائشہ ؓ کو نہیں پایا اور سعید بن بشیر قوی نہیں ہے ۔
تشریح :
بعض علما اس حدیث سے عورت کے لئے چہرہ ننگا رکھنے کا اثبات کرتے ہیں ،جو صحیح نہیں ۔ کیو نکہ احتمال ہے کہ یہ ارشادحجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہو نیز یہ روایت مرسل ہے جیسے کہ امام ابو داودؒاللہ نے واضح فرمایا ہے اوراس کا ایک راوی سعید بن بشیرازی ضعیف ہے ،دیکھیے ۔۔نیز اگلی (حدیث 4106)میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ اپنے پاوں چھپانے کے لئے مضطرب ہوتی تھیں اور حدیث 4118 میں آرہا ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ نے بھی اپنی چادر کا پلو لمبا کرنے کا پوچھا تو آپ ؐ نے ایک پالشت بتایا اس پر انہوں نے عذرکیا کہ اس طرح تو پاون ننگے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔جن امت کی یہ مائیں کو تمام عورتوں کے لئے انتہائی عظیم قابل قدر نمونہ ہیں ان کا یہ حال ہے کہ پاوں ننگے ہونے سے پریشان ہوتی ہیں تو کس طرح پاور کیا جاسکتا ہے کہ وہ چہرہ ننگے کرنے کو جائز سمجھتی ہوں گی اور کسی کے لئے( عورت ہو یا مرد ) اس کا چہرہ ہی منبع حسن وقبح ہوتا ہے جبکہ امت کے مردوں کوحکم دیا گیا کہ ضرورت کی چیز طلب کرنی ہو تومنہ اٹھائے گھروں کے اندر گھس جایا کرو۔ بلکہ اوٹ کی پیچھے سے طلب کیا کرو کئی صحیح اور صریح احادیث میں غیر محرم کو اجنبی عورت کے ہاں جانا جائز نہیں اور شوہر کے رشتہ دار مردوں کا گھر میں بے باکا نہ اندر آجانا بھی جائز نہیں بلکہ مرد کے رشتہ داردیواراور جیٹھ وغیرہ عورت کے لئے موت ہیں ۔ (مسئلہ حجاب اور چہرے کے پردے کی تفصیل اورشافی بحث تفسیر اضواءالبیان ،ازعلامہ محمد امین شنقیطی ؒسورءاحزاب میں ملاخطہ ہو۔ )
بعض علما اس حدیث سے عورت کے لئے چہرہ ننگا رکھنے کا اثبات کرتے ہیں ،جو صحیح نہیں ۔ کیو نکہ احتمال ہے کہ یہ ارشادحجاب کے احکام نازل ہونے سے پہلے کا ہو نیز یہ روایت مرسل ہے جیسے کہ امام ابو داودؒاللہ نے واضح فرمایا ہے اوراس کا ایک راوی سعید بن بشیرازی ضعیف ہے ،دیکھیے ۔۔نیز اگلی (حدیث 4106)میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ اپنے پاوں چھپانے کے لئے مضطرب ہوتی تھیں اور حدیث 4118 میں آرہا ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ نے بھی اپنی چادر کا پلو لمبا کرنے کا پوچھا تو آپ ؐ نے ایک پالشت بتایا اس پر انہوں نے عذرکیا کہ اس طرح تو پاون ننگے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔جن امت کی یہ مائیں کو تمام عورتوں کے لئے انتہائی عظیم قابل قدر نمونہ ہیں ان کا یہ حال ہے کہ پاوں ننگے ہونے سے پریشان ہوتی ہیں تو کس طرح پاور کیا جاسکتا ہے کہ وہ چہرہ ننگے کرنے کو جائز سمجھتی ہوں گی اور کسی کے لئے( عورت ہو یا مرد ) اس کا چہرہ ہی منبع حسن وقبح ہوتا ہے جبکہ امت کے مردوں کوحکم دیا گیا کہ ضرورت کی چیز طلب کرنی ہو تومنہ اٹھائے گھروں کے اندر گھس جایا کرو۔ بلکہ اوٹ کی پیچھے سے طلب کیا کرو کئی صحیح اور صریح احادیث میں غیر محرم کو اجنبی عورت کے ہاں جانا جائز نہیں اور شوہر کے رشتہ دار مردوں کا گھر میں بے باکا نہ اندر آجانا بھی جائز نہیں بلکہ مرد کے رشتہ داردیواراور جیٹھ وغیرہ عورت کے لئے موت ہیں ۔ (مسئلہ حجاب اور چہرے کے پردے کی تفصیل اورشافی بحث تفسیر اضواءالبیان ،ازعلامہ محمد امین شنقیطی ؒسورءاحزاب میں ملاخطہ ہو۔ )