Book - حدیث 410

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ فِي وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ صحيح ثم حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهُ قَالَ أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا وَقَالَتْ إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَةُ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 410

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: نماز عصر کا وقت جناب ابو یونس ، سیدہ عائشہ ؓا کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ ؓا نے حکم دیا کہ انہیں قرآن مجید لکھ دوں اور فرمایا کہ جب تم آیت کریمہ «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» پر پہنچو تو مجھے بتلانا ۔ چنانچہ جب میں اس آیت کریمہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی ۔ تو انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح لکھوائی «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ” نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز ( یا افضل ) نماز عصر کی ‘ اور اللہ کے لیے با ادب ہو کر کھڑے ہوؤ ۔ “ پھر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ ( آیت ان الفاظ کے ساتھ ) رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے ۔
تشریح : اس قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطی سے مراد ، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہےکیونکہ عطف مغائرت کامقتضی ہے۔لیکن علماء نےاس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کےالفاظ اصطلاحی طور پر’’ شاذ قراءت ،، کہلاتے ہیں جوحجت نہیں۔ قرآن کریم کےلیے ’’ تواتر ،، شرط ہے۔اس قسم کی قراءت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نےکہا ہےاحتمال ہےکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سےسنا ہومگر بعدمیں اسےمنسوخ کردیا گیا ہوجس کاانہیں علم نہ ہوسکا ہو۔یاان ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کا خیال ہوگا کہ اس آیت کےالفاظ باقی اورحکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہےکہ نبی ﷺ نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگرحضرت عائشہ رضی للہ عنہا نےاسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اوراسی بیناد پراپنے مصحف میں درج کرالیا۔ (2)یا یہ عطف تفسیری ہو(یعنی توضیح کےلیے ) (3)یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی ہوتی ہےجس میں صلوۃ العصر کےالفاظ بغیر واؤ کےہیں۔واللہ اعلم ۔ (عون المعبود ) لفظ ( وسطی) مجمل ہے ۔ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی ۔لیکن دوسرے معنی ’’افضل واعلی،، ہیں جیسے کہ آیت کریمہ ( وکذلک جعلناکم امّۃ وسطا لتکونوا شہدآء علی الناس ) (البقرہ : 143) ’’ اورایسے ہی ہم نے تمہیں افضل واعلی امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو،،۔ میں امت وسط سےمراد ’’افضل واعلی امت،، ہے۔اسی طرح ( الصلوۃ الوسطی ) کےمعنی ’’افضل واعلی،، بنتے ہیں اوراحادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصرہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔ اس قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطی سے مراد ، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہےکیونکہ عطف مغائرت کامقتضی ہے۔لیکن علماء نےاس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کےالفاظ اصطلاحی طور پر’’ شاذ قراءت ،، کہلاتے ہیں جوحجت نہیں۔ قرآن کریم کےلیے ’’ تواتر ،، شرط ہے۔اس قسم کی قراءت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نےکہا ہےاحتمال ہےکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سےسنا ہومگر بعدمیں اسےمنسوخ کردیا گیا ہوجس کاانہیں علم نہ ہوسکا ہو۔یاان ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) کا خیال ہوگا کہ اس آیت کےالفاظ باقی اورحکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہےکہ نبی ﷺ نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگرحضرت عائشہ رضی للہ عنہا نےاسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اوراسی بیناد پراپنے مصحف میں درج کرالیا۔ (2)یا یہ عطف تفسیری ہو(یعنی توضیح کےلیے ) (3)یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی ہوتی ہےجس میں صلوۃ العصر کےالفاظ بغیر واؤ کےہیں۔واللہ اعلم ۔ (عون المعبود ) لفظ ( وسطی) مجمل ہے ۔ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی ۔لیکن دوسرے معنی ’’افضل واعلی،، ہیں جیسے کہ آیت کریمہ ( وکذلک جعلناکم امّۃ وسطا لتکونوا شہدآء علی الناس ) (البقرہ : 143) ’’ اورایسے ہی ہم نے تمہیں افضل واعلی امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو،،۔ میں امت وسط سےمراد ’’افضل واعلی امت،، ہے۔اسی طرح ( الصلوۃ الوسطی ) کےمعنی ’’افضل واعلی،، بنتے ہیں اوراحادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصرہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔