Book - حدیث 4084

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ مَا جَاءَ فِي إِسْبَالِ الْإِزَارِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي غِفَارٍ حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيُّ وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ قَالَ رَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ قَالَ لَا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلَامُ فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ قُلْ السَّلَامُ عَلَيْكَ قَالَ قُلْتُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ قَالَ قُلْتُ اعْهَدْ إِلَيَّ قَالَ لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا قَالَ فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً قَالَ وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنْ الْمَعْرُوفِ وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ الْمَعْرُوفِ وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنْ الْمَخِيلَةِ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ وَإِنْ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ

ترجمہ Book - حدیث 4084

کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل باب: تہبند ، شلوار اور پینٹ وغیرہ کا ٹخنے سے نیچے لٹکانا ( ناجائز ہے ) سیدنا ابوجری جابر بن سلیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی بات خوب سنتے اور مانتے تھے ۔ وہ جو بھی کہتا اسے قبول کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ۔ میں بھی حاضر ہو گیا اور کہا : «عليك السلام يا رسول الله» ” آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول ! “ میں نے یہ دو بار کہا ۔ آپ نے فرمایا ” یہ لفظ «عليك السلام» مت کہو ۔ یہ میت کا تحیہ اور سلام ہے ۔ بلکہ یوں کہو «السلام عليك» میں نے کہا : ( کیا ) آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا ” میں اس اللہ کا بھیجا ہوا ہوں کہ جب تمہیں کوئی دکھ پہنچے اور تم اسے پکارو ، تو وہ اسے تم سے دور کر دے ، اگر تمہیں خشک سالی کا سامنا ہو ، تم اس سے دعا کرو تو وہ تمہاری کھیتیاں اگا دے ۔ جب تم کسی صحرا یا ویران اور بنجر زمین میں ہو اور تمہاری سواری گم ہو جائے اور تم اسے پکارو تو وہ اسے تمہیں واپس لوٹا دے ۔ “ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا ” کسی کو گالی نہ دینا ۔ “ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی کو گالی نہیں دی کسی نہ آزاد کو نہ غلام کو ، نہ اونٹ کو نہ بکری کو ۔ آپ نے فرمایا ” کسی نیکی کو حقیر مت جاننا ، اپنے بھائی سے بات کرو تو کھلے چہرے سے بات کیا کرو بلاشبہ یہ نیکی ہے ، اور اپنی چادر آدھی پنڈلی تک اونچی رکھا کرو ، اور اگر نہ کر سکو تو ٹخنوں تک کر سکتے ہو ۔ ( ٹخنوں سے نیچے ) چادر لٹکانے سے بچنا ۔ بیشک یہ تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اگر کوئی شخص تمہیں برا بھلا کہے اور تمہیں تمہاری کسی بات پر جو وہ جانتا ہو عار دلائے تو تم اس کے عیب پر جو اس میں ہو اسے عار مت دلانا ، بلاشبہ اس کا وبال اسی پر ہو گا ۔ “
تشریح : 1 : اللہ کے رسول ؐ کامقام ومنصب صحابہ کرام رضی اللہ خوب جانتے اورپہچانتے تھے کہ آپ جو فرمائیں اسے سنا اورمانا جائے اور اب یہی ہے کہ پر صاحب ایمان کو رسول اللہ کا جو بھی فرمان معلوم ہو جائے اس کو اپنے عمل میں لانے کی کوشش کرے 2 : سنت یہ ہے کہ قبرستان میں جاتے ہوئے اموات کو (اسلام علیکم یا اھل القبور)کہا جائے ۔ حدیث میں جو مذکورہواہے وہ شائد عہد جاہلیت کا انداز تھا کہ وہ علیک اسلام )کہتے تھے ۔ 3 :مسلمان کو ہرچھوٹی بڑی اور ظاہری باطنی حاجات کے لئے صرف اور صرف اللہ کے حضوردعا کرنی چاہیے کہ وہی سننے اورقبول کرنے والا ہے۔ 4 : کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا کہ کسی چیز کو گالی دے ۔ 5 :کسی بھی نیکی کو کبھی حقیراور معمولی نہیں جاننا چاہیے ۔ 6 : اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیشہ ہنسی ،خوشی ،کشادہ دلی اورخدنہ پیشانی سے ملنا چاہیے۔ 7 : مرد کو چاہیے کہ لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کرے جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو ۔ 8 : چادر شلوارکا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے یا نسوانیت کی ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں تکبر سے ایسے نہیں کرتاہوں تو اس کا یہ کہنا ہی تکبر ہے کہ رسول ؐ کے صریح فرمان کواپنے عمل میں لانے ک بجائے لا یعنی عذرکرتا ہے ۔ 9 : اس قسم کے بظاہر عام اور چھوٹے اعمال پر اخلاص سے عمل کرنا دلیل ہے کہ یہ شخص صاحب ایمان ہے اگر چہ یہ اعمال چھوٹے نہیں ہیں کیو نکہ ان کی برکت سے دیگر بڑے فضائل حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے اور جوان پر عمل نہیں کرتا اس سے کیا توقع رکھی جائے کہ وہ بڑی بھاری نیکیاں کمالے گا ۔ 10 : اپنے مسلمان بھائی کو اس کے عیب پر عار نہ دلانا ،بہت عزیمت کا کام ہے البتہ کسی مناسب بھلے اندازسے نصحیت کرو۔ 1 : اللہ کے رسول ؐ کامقام ومنصب صحابہ کرام رضی اللہ خوب جانتے اورپہچانتے تھے کہ آپ جو فرمائیں اسے سنا اورمانا جائے اور اب یہی ہے کہ پر صاحب ایمان کو رسول اللہ کا جو بھی فرمان معلوم ہو جائے اس کو اپنے عمل میں لانے کی کوشش کرے 2 : سنت یہ ہے کہ قبرستان میں جاتے ہوئے اموات کو (اسلام علیکم یا اھل القبور)کہا جائے ۔ حدیث میں جو مذکورہواہے وہ شائد عہد جاہلیت کا انداز تھا کہ وہ علیک اسلام )کہتے تھے ۔ 3 :مسلمان کو ہرچھوٹی بڑی اور ظاہری باطنی حاجات کے لئے صرف اور صرف اللہ کے حضوردعا کرنی چاہیے کہ وہی سننے اورقبول کرنے والا ہے۔ 4 : کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا کہ کسی چیز کو گالی دے ۔ 5 :کسی بھی نیکی کو کبھی حقیراور معمولی نہیں جاننا چاہیے ۔ 6 : اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیشہ ہنسی ،خوشی ،کشادہ دلی اورخدنہ پیشانی سے ملنا چاہیے۔ 7 : مرد کو چاہیے کہ لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کرے جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو ۔ 8 : چادر شلوارکا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے یا نسوانیت کی ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں تکبر سے ایسے نہیں کرتاہوں تو اس کا یہ کہنا ہی تکبر ہے کہ رسول ؐ کے صریح فرمان کواپنے عمل میں لانے ک بجائے لا یعنی عذرکرتا ہے ۔ 9 : اس قسم کے بظاہر عام اور چھوٹے اعمال پر اخلاص سے عمل کرنا دلیل ہے کہ یہ شخص صاحب ایمان ہے اگر چہ یہ اعمال چھوٹے نہیں ہیں کیو نکہ ان کی برکت سے دیگر بڑے فضائل حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے اور جوان پر عمل نہیں کرتا اس سے کیا توقع رکھی جائے کہ وہ بڑی بھاری نیکیاں کمالے گا ۔ 10 : اپنے مسلمان بھائی کو اس کے عیب پر عار نہ دلانا ،بہت عزیمت کا کام ہے البتہ کسی مناسب بھلے اندازسے نصحیت کرو۔