Book - حدیث 4039

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْخَزِّ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ غَنْمٍ الْأَشْعَرِيَّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ وَاللَّهِ يَمِينٌ أُخْرَى مَا كَذَّبَنِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْخَزَّ وَالْحَرِيرَ وَذَكَرَ كَلَامًا قَالَ يُمْسَخُ مِنْهُمْ آخَرُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَعِشْرُونَ نَفْسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَكْثَرُ لَبِسُوا الْخَزَّ مِنْهُمْ أَنَسٌ وَالْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ

ترجمہ Book - حدیث 4039

کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل باب: خز کا لباس پہننا عبدالرحمٰن بن غنم اشعری نے کہا کہ اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ” یقیناً میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو خز اور ریشم کو حلال سمجھیں گے ۔ “ پھر کچھ بیان کیا ۔ اس کے بعد فرمایا ” کئی ان میں سے قیامت تک کے لیے بندر بنا دیے جائیں گے اور کئی خنزیر ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول ﷺ میں سے بیس یا زیادہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ خز پہنتے تھے ۔ ان میں سیدنا انس بن مالک اور براء بن عازب ؓ کا نام بھی ہے ۔
تشریح : اس حدیث میں مروی ہے لفظ الخز ( خا اور زا دونوں منقوط کے تین معانی ہیں جو اور مذکور ہوئے ہیں ۔ خالص ریشم مردوں کے لئے بالا جماع حرام ہے۔ الخزوالحریر کے مابین عطف تفسیر یانوعیت کے معنی میں ہیں۔ مخلوط یاکسی دوسری نوعیت کا ہوتو اس سے احترازافضل ہے تاکہ غیر مسلوں اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت ہو ۔ 2 : اس لفظ الخز کی ایک روایت الحر بھی ہے یعنی حا مکسوراور رو دونوں بلانقطہ ۔ اس کے معنی ہیں :فرج یعنی عورت کے لئے شرم گاہ ،مفہوم یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور ریشم لے لباس کو حلال جانیں گے 3ایسے لوگوں کو مسخ کیا جانا یعنی ان کی شکلوں کا بدل جانا اگر حقیقتاہو تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہیں اور اگر معنا مراد ہو تو موجودہ حالات میں ابا حیت پسند لوگوں میں بندروں اور سئوروں کی خصوصیات مشاہدہ کی جاسکتی ہیں کہ لوگ غیر مسلموں کی نقالی میں بے باک اور بے عزتی اوردیوثیت مین بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ اس حدیث میں مروی ہے لفظ الخز ( خا اور زا دونوں منقوط کے تین معانی ہیں جو اور مذکور ہوئے ہیں ۔ خالص ریشم مردوں کے لئے بالا جماع حرام ہے۔ الخزوالحریر کے مابین عطف تفسیر یانوعیت کے معنی میں ہیں۔ مخلوط یاکسی دوسری نوعیت کا ہوتو اس سے احترازافضل ہے تاکہ غیر مسلوں اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت ہو ۔ 2 : اس لفظ الخز کی ایک روایت الحر بھی ہے یعنی حا مکسوراور رو دونوں بلانقطہ ۔ اس کے معنی ہیں :فرج یعنی عورت کے لئے شرم گاہ ،مفہوم یہ ہوا کہ وہ لوگ زنا کاری اور ریشم لے لباس کو حلال جانیں گے 3ایسے لوگوں کو مسخ کیا جانا یعنی ان کی شکلوں کا بدل جانا اگر حقیقتاہو تو اللہ عزوجل کے لئے کوئی مشکل نہیں اور اگر معنا مراد ہو تو موجودہ حالات میں ابا حیت پسند لوگوں میں بندروں اور سئوروں کی خصوصیات مشاہدہ کی جاسکتی ہیں کہ لوگ غیر مسلموں کی نقالی میں بے باک اور بے عزتی اوردیوثیت مین بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔