Book - حدیث 403

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابٌ فِي وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حسن صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ الظُّهْرَ إِذَا دَحَضَتْ الشَّمْسُ

ترجمہ Book - حدیث 403

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: ظہر کی نماز کا وقت سیدنا جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا تھا تو بلال ؓ ظہر کی اذان کہتے تھے ۔
تشریح : (1) ( ان شدۃ الحر من فیح جہنم ) یعنی ’’گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے یا اس کی جنس سےہے۔ ،، چونکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے اس فرمان کی توضیح نہیں فرمائی اس لیے ہمارے نزدیک اسے ظاہر ہی پر محمول کرنا زیادہ بہترہے جبکہ کچھ علماء نےاسے تشبیہ واستعارہ قرار دیا ہے۔ظاہر اورحقیقت پرمحمول کرنے کی دلیل وہ حدیث ہےجس میں ہےکہ ’’ آگ نےاپنے رب سے شکایت کی تو اس کودوسانسوں کااجازت دی ۔ ایک سردی میں اور ایک گرمی میں۔،، ( صحیح مسلم ، حدیث 217) (2) ( ابردوا بالصلاۃ ) یعنی ’’نماز کوٹھنڈے وقت میں پڑھو ۔،، اس سے وہ وقت مراد ہے جب بعداززوال ہوائیں چلنا اورگرمی کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہےاور اسی وقت جہنم کچھ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ اگر بالکل ہی ٹھنڈک کاوقت مراد لیا جائے توبعض اوقات عصر کےوقت اورکبھی اس کے بعد بھی ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے۔نبی ﷺ او رصحابہ کرام کےمعمولات سےاس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ ( دیکھیے نیل الاوطار ) اوریہ امر جمہور کےنزدیک استحباب وارشاد پرمحمول ہےاو رکچھ نےاس کےوجوب کے لیے بھی سمجھا ہے۔ وللہ اعلم . تعجیل وابرادمیں رفع تعارض اورجمع میں مذکورۃ الصدر مفہوم کی واضح دلیل یہ ہےکہ سول اللہ ﷺ جہاد کےموقع پراگرپہلے پہرقتال شروع نہ فرماتے توزوال کاانتظار کرتےتھے ۔اور اس وقت کوآپ نے ہواؤں کےچلنے ،نصرت کےاترنے اورقتال کےلیے مناسب ہونے سےتعبیر فرمایا ہے۔ نص یہ ہے : ( کان اذا لم یقاتل فی اول النهار انتظرحتی تہب الارواح وتحضر الصلوات ) ( صحيح بخاري ، حديث : 3160 – قال فى الفتح : 6/ 365 – فى رواية ابن ابى شيبة " ونزول الشمس ،، وهو بالمعنى ، وزاد فى رواية الطبرى " ويطيب القتال ،، وفى رواية ابن ابى شيبة ’’ وينز ل النصر ،، (1) ( ان شدۃ الحر من فیح جہنم ) یعنی ’’گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے یا اس کی جنس سےہے۔ ،، چونکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے اس فرمان کی توضیح نہیں فرمائی اس لیے ہمارے نزدیک اسے ظاہر ہی پر محمول کرنا زیادہ بہترہے جبکہ کچھ علماء نےاسے تشبیہ واستعارہ قرار دیا ہے۔ظاہر اورحقیقت پرمحمول کرنے کی دلیل وہ حدیث ہےجس میں ہےکہ ’’ آگ نےاپنے رب سے شکایت کی تو اس کودوسانسوں کااجازت دی ۔ ایک سردی میں اور ایک گرمی میں۔،، ( صحیح مسلم ، حدیث 217) (2) ( ابردوا بالصلاۃ ) یعنی ’’نماز کوٹھنڈے وقت میں پڑھو ۔،، اس سے وہ وقت مراد ہے جب بعداززوال ہوائیں چلنا اورگرمی کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہےاور اسی وقت جہنم کچھ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ اگر بالکل ہی ٹھنڈک کاوقت مراد لیا جائے توبعض اوقات عصر کےوقت اورکبھی اس کے بعد بھی ٹھنڈک نہیں ہوتی ہے۔نبی ﷺ او رصحابہ کرام کےمعمولات سےاس حدیث کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے۔ ( دیکھیے نیل الاوطار ) اوریہ امر جمہور کےنزدیک استحباب وارشاد پرمحمول ہےاو رکچھ نےاس کےوجوب کے لیے بھی سمجھا ہے۔ وللہ اعلم . تعجیل وابرادمیں رفع تعارض اورجمع میں مذکورۃ الصدر مفہوم کی واضح دلیل یہ ہےکہ سول اللہ ﷺ جہاد کےموقع پراگرپہلے پہرقتال شروع نہ فرماتے توزوال کاانتظار کرتےتھے ۔اور اس وقت کوآپ نے ہواؤں کےچلنے ،نصرت کےاترنے اورقتال کےلیے مناسب ہونے سےتعبیر فرمایا ہے۔ نص یہ ہے : ( کان اذا لم یقاتل فی اول النهار انتظرحتی تہب الارواح وتحضر الصلوات ) ( صحيح بخاري ، حديث : 3160 – قال فى الفتح : 6/ 365 – فى رواية ابن ابى شيبة " ونزول الشمس ،، وهو بالمعنى ، وزاد فى رواية الطبرى " ويطيب القتال ،، وفى رواية ابن ابى شيبة ’’ وينز ل النصر ،،