Book - حدیث 3957

كِتَابُ الْعِتْقِ بَابٌ فِي بَيْعِ الْمُدْبِرِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ-: يُقَالُ لَهُ: أَبُو مَذْكُورٍ- أَعْتَقَ غُلَامًا لَهُ: يُقَالُ لَهُ: يَعْقُوبُ- عَنْ دُبُرٍ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُ، فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: >مَنْ يَشْتَرِيهِ؟<، فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّحَّامِ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: >إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فَقِيرًا فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ, فَإِنْ كَانَ فِيهَا فَضْلٌ فَعَلَى عِيَالِهِ, فَإِنْ كَانَ فِيهَا فَضْلٌ, فَعَلَى ذِي قَرَابَتِهِ- أَوْ قَالَ: عَلَى ذِي رَحِمِهِ, فَإِنْ كَانَ فَضْلًا فَهَاهُنَا وَهَاهُنَا<.

ترجمہ Book - حدیث 3957

کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل باب: مدبر غلام کی فروخت کا مسئلہ سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ ابومذکور نامی ایک انصاری نے اپنے غلام کے بارے میں کہہ دیا کہ میری موت کے بعد وہ آزاد ہو گا ۔ اس غلام کا نام یعقوب تھا اور اس انصاری کا اس کے سوا کوئی اور مال نہ تھا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس غلام کو بلوایا اور فرمایا ” اسے کون خریدتا ہے ؟ “ تو جناب نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اس کو آٹھ سو درہم میں خرید لیا ‘ چنانچہ آپ ﷺ نے یہ رقم ابومذکور کے حوالے کی اور فرمایا ” جب تم میں سے کوئی ضرورت مند ہو تو چاہیے کہ ( خرچ کرنے کی ) اپنے سے ابتداء کرے ‘ اگر کچھ بچ جائے تو اپنے عیال پر خرچ کرے ‘ اگر ان سے بچ رہے تو اپنے قرابت داروں پر خرچ کرے ۔ “ آپ ﷺ کے الفاظ «على ذي قرابته» تھے یا «على ذي رحمه» اور اگر بچ رہے تو ادھر ادھر خرچ کر دے ۔ “
تشریح : )اگرکوئی غلام مدبرکیا جاچکا ہو اور احوال وظروف اس کی اجازت نہ دیتے ہوں تو اس کی آزادی کومنسوخ کیا جاسکتا ہے اور اس کو فروخت کرنا جائز ہے۔ 2) خود ضرورت مند ہوتے ہوئے صدقہ کرناا گرچہ باعث فضیلت عمل ہے، مگر دیکھا جائے کہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنا ایسے لوگوں کے لئے ممکن بھی ہے یا نہیں؟ )اگرکوئی غلام مدبرکیا جاچکا ہو اور احوال وظروف اس کی اجازت نہ دیتے ہوں تو اس کی آزادی کومنسوخ کیا جاسکتا ہے اور اس کو فروخت کرنا جائز ہے۔ 2) خود ضرورت مند ہوتے ہوئے صدقہ کرناا گرچہ باعث فضیلت عمل ہے، مگر دیکھا جائے کہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنا ایسے لوگوں کے لئے ممکن بھی ہے یا نہیں؟