Book - حدیث 3883

كِتَابُ الطِّبِّ بَابٌ فِي تَعْلِيقِ التَّمَائِمِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ قَالَتْ قُلْتُ لِمَ تَقُولُ هَذَا وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا

ترجمہ Book - حدیث 3883

کتاب: علاج کے احکام و مسائل باب: تعویذ گنڈے لٹکانا سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ” دم جھاڑ ‘ گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں یا تحریریں شرک ہیں ۔ “ ان کی اہلیہ نے کہا : آپ یہ کیوں کر کہتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! میری آنکھ درد کی وجہ سے گویا نکلی جاتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ مجھے دم کرتا تھا ۔ جب وہ دم کرتا ہو میرا درد رک جاتا تھا ۔ سیدنا عبداللہ ؓ نے کہا : یہ شیطان کی کارستانی ہوتی تھی ۔ وہ تیری آنکھ میں اپنی انگلی مارتا تھا ‘ تو جب وہ ( یہودی ) دم کرتا تو ( شیطان ) باز آ جاتا تھا ۔ حالانکہ تجھے یہی کچھ کہنا کافی تھا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کہا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس ، اشف أنت الشافي ، لا شفاء إلا شفاؤك ، شفاء لا يغادر سقما» ” اے لوگوں کے رب ! دکھ دور کر دے ‘ شفاء عنایت فر ‘ تو ہی شفاء دینے والا ہے ‘ تیری شفاء کے سوا کہیں کوئی شفاء نہیں ‘ ایسی شفاء عنایت فر جو کوئی دکھ باقی نہ رہنے دے ۔ “
تشریح : 1) رقیہۃ یعنی دم جھاڑ پھونک جو کفریہ یا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں کرنا کراناحرام اور شرک ہے ، البتہ قرآن کریم کی آیات اور مسنون دُعاءوں سے دم کرنا سنت اور باعثِ اجر ہے۔نیز ایسے کلمات جن میں شرک اور کفر کا کوئی شک شبہ نہ ہواور تجربے سے مفید ثابت ہو ئے ہوں ان سے دم کرنا جائز ہے۔ 2) یعنی وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظرِبد سے بچانے کے لیئے پہناتے ےتھے تممیہ اور تمائم کہلاتے تھے اس میں وہ کو ڑیاں ،منکے،پتھر،لوہا ،چھلے،انگوٹھیاں،لکڑی اور دھاگےوغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو جاہل لوگ بغرضِ علاج پہنتے پہناتے تھے۔ اس میں وہ تعویز بھی آتے ہیں جو کفریہ،شر کیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں، لیکن ایسے تعویزات جوآیاتِ قرآنیہ اور مسنون دُعائوں پر مشتمل ہوں اُنھیں تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے۔ اس پاکیزہ کلام کویہ برا نام دینا ناروا غلو ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم یا دُعائیں لکھ کر لٹکانارسول اللہ ﷺسے کسی طرح ثابت نہیں حالانکہ اس دور میں کاغذ ،قلم،سیاہی اور کاتب سبھی مہیا تھےاور مریض بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے تھےمگر آپنے کبھی کسی کو یہ طریقہ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔آپﷺ نے اُنھیں دم کیا یا مختلف اذکار بتائےیا کو ئی مادی علاج تجویز فرمادیا۔آیات یا دُعائوں کو بطور تعویز لٹکانابعد کی بات اور اختلافی مسئلہ ہے۔ علمائے سنت کا ایک گروہ اسکا قائل و فاعل رہا ہےاور دوسرا انکاری(ملاحظہ ہو آئیندہ حدیث3893) علمائے راسخین کی اور ہماری ترجیح یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔مگر کلام اللہ یا مسنون دُعائوں کو تمیمہ جیسا برا نام دینا بڑا ظلم ہے۔ 3) محبت کے ٹوٹکے ،تعویز اور گنڈے جادو کی قسم ہیں اور شرک ہیں۔ 4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؑ کی بات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرکیہ یا کفریہ طریقوںسے لوگوں کو جو فائدہ ہو تا ہے وہ درحقیقت شیطانی اثر ہوتا ہے۔ 5) واجب یہ ہے کہ ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرےاور یقین رکھے کہ جلد ےا بدیر شفاء ہو جائے گی۔اگر نہ ہو تو دقت نظر سے اپنا جائزہ لےکہ دُعا قبول نہ ہونے کا کیا سبب ہےاورپھر صبر سے بھی کام لےاور اللہ کے ہاں اجر اور رفع درجات کا اُمید وار رہے۔ 1) رقیہۃ یعنی دم جھاڑ پھونک جو کفریہ یا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوں کرنا کراناحرام اور شرک ہے ، البتہ قرآن کریم کی آیات اور مسنون دُعاءوں سے دم کرنا سنت اور باعثِ اجر ہے۔نیز ایسے کلمات جن میں شرک اور کفر کا کوئی شک شبہ نہ ہواور تجربے سے مفید ثابت ہو ئے ہوں ان سے دم کرنا جائز ہے۔ 2) یعنی وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظرِبد سے بچانے کے لیئے پہناتے ےتھے تممیہ اور تمائم کہلاتے تھے اس میں وہ کو ڑیاں ،منکے،پتھر،لوہا ،چھلے،انگوٹھیاں،لکڑی اور دھاگےوغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو جاہل لوگ بغرضِ علاج پہنتے پہناتے تھے۔ اس میں وہ تعویز بھی آتے ہیں جو کفریہ،شر کیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں، لیکن ایسے تعویزات جوآیاتِ قرآنیہ اور مسنون دُعائوں پر مشتمل ہوں اُنھیں تمیمہ کہنا قرآن و سنت کی ہتک ہے۔ اس پاکیزہ کلام کویہ برا نام دینا ناروا غلو ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم یا دُعائیں لکھ کر لٹکانارسول اللہ ﷺسے کسی طرح ثابت نہیں حالانکہ اس دور میں کاغذ ،قلم،سیاہی اور کاتب سبھی مہیا تھےاور مریض بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آتے تھےمگر آپنے کبھی کسی کو یہ طریقہ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔آپﷺ نے اُنھیں دم کیا یا مختلف اذکار بتائےیا کو ئی مادی علاج تجویز فرمادیا۔آیات یا دُعائوں کو بطور تعویز لٹکانابعد کی بات اور اختلافی مسئلہ ہے۔ علمائے سنت کا ایک گروہ اسکا قائل و فاعل رہا ہےاور دوسرا انکاری(ملاحظہ ہو آئیندہ حدیث3893) علمائے راسخین کی اور ہماری ترجیح یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔مگر کلام اللہ یا مسنون دُعائوں کو تمیمہ جیسا برا نام دینا بڑا ظلم ہے۔ 3) محبت کے ٹوٹکے ،تعویز اور گنڈے جادو کی قسم ہیں اور شرک ہیں۔ 4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؑ کی بات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرکیہ یا کفریہ طریقوںسے لوگوں کو جو فائدہ ہو تا ہے وہ درحقیقت شیطانی اثر ہوتا ہے۔ 5) واجب یہ ہے کہ ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرےاور یقین رکھے کہ جلد ےا بدیر شفاء ہو جائے گی۔اگر نہ ہو تو دقت نظر سے اپنا جائزہ لےکہ دُعا قبول نہ ہونے کا کیا سبب ہےاورپھر صبر سے بھی کام لےاور اللہ کے ہاں اجر اور رفع درجات کا اُمید وار رہے۔