كِتَابُ الطِّبِّ بَابٌ فِي التِّرْيَاقِ ضعیف حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يِزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ يَزِيدَ الْمُعَافِرِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا أُبَالِي مَا أَتَيْتُ إِنْ أَنَا شَرِبْتُ تِرْيَاقًا أَوْ تَعَلَّقْتُ تَمِيمَةً أَوْ قُلْتُ الشِّعْرَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِي قَالَ أَبُو دَاوُد هَذَا كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ قَوْمٌ يَعْنِي التِّرْيَاقَ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
باب: تریاق کا بیان
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا آپ ﷺ فرماتے تھے ” مجھے کوئی پروا نہیں جو چاہے کرتا پھروں اگر میں تریاق پیوں یا منکے لٹکاؤں یا اپنی طرف سے شعر کہوں ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ تریاق کا استعمال نہ کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی ۔ اور تریاق کے استعمال میں علماء کی ایک جماعت نے رخصت دی ہے ۔
تشریح :
1) یہ روایت سنداََ ضعیف ہے۔ تاہم افراد اُمت کے لیئے مسلمان متقی طبیب کے مشورے سے محض جان بچانے کے لیئےبشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو تریاق جیسی مشکوک چیزوں کا استعمال مباح ہے۔
2) تمیمہہ کو ڑیوں، درندوں کے ناخنوں، انکی ہڈیوں وغیرہ کو کہا جاتاہے؛ جو جسم پر لٹکائی جاتی ہیں(سندھی) کوڑیوں وغیرہ کو لٹکانے کی غرض یہ ہو تی ہے کہ یہ آفات اور بیماریوں کو دفع کرتی ہیں۔ یہ اعتقاد شرک پر مبنی ہے (خطابی) قاضی ابو بکر العربی نے ترمذی کی شرح میں کہا ہے کہ قرآن مجید ( یا اس کی کو ئی آئیت) لٹکانا سنت کا طریق نہیں۔ سنت قرآن کا پڑھنا ہے اور یہ اللہ تعالی کا ذکر ہے لٹکانا نہ سنت ہے نہ اسے ذکر ہی کہا جاسکتا ہے۔ جبک ہ علامہ سندھی اور علامہ خطابی وغیرہ قرآن یا اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو منع کے حکم میں شامل نہیں سمجھتے۔علامہ خطابی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات(یا ادعیہ ) کے ذریعےسے استعاذہ در حقیقت اللہ ہی سے استعاذ ہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں نےکسی ہار یا قلادہ کے اندرتعویذ لٹکانے سے منع کیا ہےتو اس وجہ سے کہ ایسے تعویذ بعض اوقات عربی کی بجائے دوسری زبانوں میں لکھے ہو تے ہیں جن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور خطرہ ہے کہ ان میں جا دو وغیرہ نہ ہو۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے (عون المعبود کتاب الطب باب فی التریاق)
قرآن مجید کی رُو سے شعر کہنا پیغمر کی شان نہیں ارشادِباری تعالیٰ ہے اور نہیں سکھا یا ہم نے ان کو شعر کہنااور یہ ان کے لائق نہیں کسی اور کا ایسا شعر نقل کرناجو حق کا ترجمان ہویا سچائی پر مبنی ہویا دفاعِ اسلام کے لیئے کہے گئے اشعار سننا الگ بات ہے اور اس پر شعر گو ئی کا اطلاق نہیں ہو تا۔
1) یہ روایت سنداََ ضعیف ہے۔ تاہم افراد اُمت کے لیئے مسلمان متقی طبیب کے مشورے سے محض جان بچانے کے لیئےبشرطیکہ جان کا بچ جانا یقینی ہوتو تریاق جیسی مشکوک چیزوں کا استعمال مباح ہے۔
2) تمیمہہ کو ڑیوں، درندوں کے ناخنوں، انکی ہڈیوں وغیرہ کو کہا جاتاہے؛ جو جسم پر لٹکائی جاتی ہیں(سندھی) کوڑیوں وغیرہ کو لٹکانے کی غرض یہ ہو تی ہے کہ یہ آفات اور بیماریوں کو دفع کرتی ہیں۔ یہ اعتقاد شرک پر مبنی ہے (خطابی) قاضی ابو بکر العربی نے ترمذی کی شرح میں کہا ہے کہ قرآن مجید ( یا اس کی کو ئی آئیت) لٹکانا سنت کا طریق نہیں۔ سنت قرآن کا پڑھنا ہے اور یہ اللہ تعالی کا ذکر ہے لٹکانا نہ سنت ہے نہ اسے ذکر ہی کہا جاسکتا ہے۔ جبک ہ علامہ سندھی اور علامہ خطابی وغیرہ قرآن یا اسمائے حسنیٰ وغیرہ کو منع کے حکم میں شامل نہیں سمجھتے۔علامہ خطابی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی آیات(یا ادعیہ ) کے ذریعےسے استعاذہ در حقیقت اللہ ہی سے استعاذ ہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جن لوگوں نےکسی ہار یا قلادہ کے اندرتعویذ لٹکانے سے منع کیا ہےتو اس وجہ سے کہ ایسے تعویذ بعض اوقات عربی کی بجائے دوسری زبانوں میں لکھے ہو تے ہیں جن کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہوتا اور خطرہ ہے کہ ان میں جا دو وغیرہ نہ ہو۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے (عون المعبود کتاب الطب باب فی التریاق)
قرآن مجید کی رُو سے شعر کہنا پیغمر کی شان نہیں ارشادِباری تعالیٰ ہے اور نہیں سکھا یا ہم نے ان کو شعر کہنااور یہ ان کے لائق نہیں کسی اور کا ایسا شعر نقل کرناجو حق کا ترجمان ہویا سچائی پر مبنی ہویا دفاعِ اسلام کے لیئے کہے گئے اشعار سننا الگ بات ہے اور اس پر شعر گو ئی کا اطلاق نہیں ہو تا۔