كِتَابُ الطِّبِّ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَتَدَاوَى صحیح حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِهِمْ الطَّيْرُ فَسَلَّمْتُ ثُمَّ قَعَدْتُ فَجَاءَ الْأَعْرَابُ مِنْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَدَاوَى فَقَالَ تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ
کتاب: علاج کے احکام و مسائل
باب: علاج کرانے کی ترغیب
سیدنا اسامہ بن شریک ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچا ( تو دیکھا کہ ) آپ کے صحابہ ( آپ کی مجلس میں ) ایسے بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے ہوں ، ( یعنی انتہائی باادب اور پرسکون تھے ) چنانچہ میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا ۔ ادھر ادھر سے بدوی لوگ آئے اور انہوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم دوا دارو کر لیا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” دوا کیا کرو ، بلاشبہ اللہ عزوجل نے کوئی بیماری پیدا نہیں کی مگر اس کی دوا بھی پیدا کی ہے ، سوائے ایک بیماری کے یعنی بڑھاپا ( اس کا کوئی علاج نہیں ) ۔ “
تشریح :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروانے کی تلقین فرمائی ہے یہ علاج کرنا کروانا توکل کے خلاف نہیں اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی علاج کروایا۔
۲) بڑھاپا زندگی کا ایک فطری مرحلہ ہے جس میں قویٰ مضحمل ہو جاتے ہیں ا گر بڑھاپا طاری ہو جائے تواس کو واپس نہیں کیا جا سکتا انسان کو بوقت ضرورت ادویہ کا استعمال کرنا چاہیئے تا کہ وہ بالکل ہی عاجز نہ ہو جائے۔
۳) صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں انتہائی پر سکون ہو کر بیٹھتے تھے اور یہی ادب طلبہ علم کے لیئے ہے کہ اپنے اساتذہ کے سامنے باادب ہو کر بیٹھا کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروانے کی تلقین فرمائی ہے یہ علاج کرنا کروانا توکل کے خلاف نہیں اورخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی علاج کروایا۔
۲) بڑھاپا زندگی کا ایک فطری مرحلہ ہے جس میں قویٰ مضحمل ہو جاتے ہیں ا گر بڑھاپا طاری ہو جائے تواس کو واپس نہیں کیا جا سکتا انسان کو بوقت ضرورت ادویہ کا استعمال کرنا چاہیئے تا کہ وہ بالکل ہی عاجز نہ ہو جائے۔
۳) صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں انتہائی پر سکون ہو کر بیٹھتے تھے اور یہی ادب طلبہ علم کے لیئے ہے کہ اپنے اساتذہ کے سامنے باادب ہو کر بیٹھا کریں۔