Book - حدیث 3816

كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي الْمُضْطَرِّ إِلَى الْمَيْتَةِ حسن الإسناد حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا نَزَلَ الْحَرَّةَ وَمَعَهُ أَهْلُهُ وَوَلَدُهُ فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ نَاقَةً لِي ضَلَّتْ فَإِنْ وَجَدْتَهَا فَأَمْسِكْهَا فَوَجَدَهَا فَلَمْ يَجِدْ صَاحِبَهَا فَمَرِضَتْ فَقَالَتْ امْرَأَتُهُ انْحَرْهَا فَأَبَى فَنَفَقَتْ فَقَالَتْ اسْلُخْهَا حَتَّى نُقَدِّدَ شَحْمَهَا وَلَحْمَهَا وَنَأْكُلَهُ فَقَالَ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ هَلْ عِنْدَكَ غِنًى يُغْنِيكَ قَالَ لَا قَالَ فَكُلُوهَا قَالَ فَجَاءَ صَاحِبُهَا فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ فَقَالَ هَلَّا كُنْتَ نَحَرْتَهَا قَالَ اسْتَحْيَيْتُ مِنْكَ

ترجمہ Book - حدیث 3816

کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل باب: مجبور کے لیے مردار کھانا ( مباح ہے ) سیدنا جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ( مدینہ کے قریب ) مقام حرہ پر پڑاؤ کیا ۔ اس کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی تھے ۔ ( وہاں کے ) ایک آدمی نے اس سے کہا کہ میری اونٹنی گم ہو گئی ہے اگر تمہیں ملے تو اسے پکڑ لینا ۔ چنانچہ وہ اسے مل گئی مگر اس کا مالک نہ ملا ۔ پھر وہ اونٹنی بیمار ہو گئی ۔ تو اس شخص کی بیوی نے کہا کہ اس کو نحر ( ذبح ) کر لو ۔ مگر وہ نہ مانا اور بالآخر وہ مر گئی ۔ تو عورت نے کہا کہ اس کا چمڑا اتار لو کہ ہم اس کی چربی اور گوشت خشک کر لیں اور کھائیں ۔ تو آدمی نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لوں ۔ چنانچہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” کیا تمہارے پاس کچھ ہے جو تمہیں اس سے بے پروا کر دے ؟ “ اس نے کہا : نہیں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا ” تب تم اسے کھا سکتے ہے ۔ ” پھر اس اونٹنی کا مالک آ گیا تو اس نے اسے ساری تفصیل بتائی تو اس نے کہا : تم نے اسے نحر ( ذبح ) کیوں نہ کر لیا ؟ اس نے جواب دیا مجھے تم سے حیاء آئی ۔ ( کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ اس نے حیلے بہانے سے اونٹنی کاٹ کھائی ہے ) ۔
تشریح : فوائد ومسائل۔1۔جب آدمی از حد لاچار ہوجائے۔اور کھانے کو کچھ نہ پائے تو اس کےلئے مردارکھانا جائز ہو جاتا ہے۔2۔یہ فطری اور شرعی حیا تھی کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی یہ شخص دوسروں کامال کھانے کا رواداد نہ ہوا۔اور یہ ایمان کا حصہ ہے۔2۔یہ شخص ایسا پکا کھرا پابند شریعت مومن اوررسول اللہ ﷺ کا مطیع وفرمانبردار تھا کہ اس لاچاری کی کیفیت میں بھی اس نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی۔اور اس حالت میں بھی لوگوں سے مانگنے کی ذلت قبول نہیں کی۔ فوائد ومسائل۔1۔جب آدمی از حد لاچار ہوجائے۔اور کھانے کو کچھ نہ پائے تو اس کےلئے مردارکھانا جائز ہو جاتا ہے۔2۔یہ فطری اور شرعی حیا تھی کہ انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی یہ شخص دوسروں کامال کھانے کا رواداد نہ ہوا۔اور یہ ایمان کا حصہ ہے۔2۔یہ شخص ایسا پکا کھرا پابند شریعت مومن اوررسول اللہ ﷺ کا مطیع وفرمانبردار تھا کہ اس لاچاری کی کیفیت میں بھی اس نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی۔اور اس حالت میں بھی لوگوں سے مانگنے کی ذلت قبول نہیں کی۔