Book - حدیث 3808

كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ صحيح ق دون قول عمرو فأخبرت. . الخ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَسَنٍ الْمِصِّيصِيُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَخْبَرَنِي رَجُلٌ عَنْ جَابِرِ بَنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْحُمُرِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْخَيْلِ قَالَ عَمْرٌو فَأَخْبَرْتُ هَذَا الْخَبَرَ أَبَا الشَّعْثَاءِ فَقَالَ قَدْ كَانَ الْحَكَمُ الْغِفَارِيُّ فِينَا يَقُولُ هَذَا وَأَبَى ذَلِكَ الْبَحْرُ يُرِيدُ ابْنَ عَبَّاسٍ

ترجمہ Book - حدیث 3808

کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل باب: پالتو گدھوں کا گوشت کھانا ؟ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے روز ہمیں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ ہم گھوڑوں کا گوشت کھائیں ۔ عمرو نے کہا : میں نے یہ روایت ابولشعثاء کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ حکم ( حکم بن عمرو غفاری ) غفاری ( بصرہ میں ) ہمارے پاس تھے وہ بھی یہی کہتے تھے ۔ مگر اس ” بحر “ نے اس کا انکار کیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ؓ مراد ہیں ۔
تشریح : فائدہ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم وفضل کی بنا پر انہیں (بحر الامۃ یا حبر الامۃ )کہا جاتا ہے۔اور گدھوں کے بارے میں ان کا یہ قول شاید وضاحت کے ساتھ حدیث نہ پہنچنے کے سبب تھا۔صحیحین میں شعبی کے حوالے سے ان کاقول مروی ہے۔کہ مجھے معلوم نہیں کہ (خیبر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے اس وجہ سے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔کہ لوگ سواریوں سے محروم نہ ہوجایئں۔یا ان کو حرام قراردیاتھا۔لیکن بالاخر جب انھیں بالوضاحت حرمت کی احادیث پہنچیں۔حضرت ابی طالب سے بھی ان کی بحث ہوئی تو یقین کے ساتھ وہ ان کی حرمت کے قائل ہوگئے تھے (فوائد ابن القہیم) فائدہ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم وفضل کی بنا پر انہیں (بحر الامۃ یا حبر الامۃ )کہا جاتا ہے۔اور گدھوں کے بارے میں ان کا یہ قول شاید وضاحت کے ساتھ حدیث نہ پہنچنے کے سبب تھا۔صحیحین میں شعبی کے حوالے سے ان کاقول مروی ہے۔کہ مجھے معلوم نہیں کہ (خیبر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے اس وجہ سے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔کہ لوگ سواریوں سے محروم نہ ہوجایئں۔یا ان کو حرام قراردیاتھا۔لیکن بالاخر جب انھیں بالوضاحت حرمت کی احادیث پہنچیں۔حضرت ابی طالب سے بھی ان کی بحث ہوئی تو یقین کے ساتھ وہ ان کی حرمت کے قائل ہوگئے تھے (فوائد ابن القہیم)