Book - حدیث 3801

كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي أَكْلِ الضَّبُعِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الضَّبُعِ فَقَالَ هُوَ صَيْدٌ وَيُجْعَلُ فِيهِ كَبْشٌ إِذَا صَادَهُ الْمُحْرِمُ

ترجمہ Book - حدیث 3801

کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل باب: لگڑ بگڑ کھانا کیسا ہے ؟ سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لگڑ بگڑ کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” وہ شکار ہے اگر اسے محرم شکار کرے تو اس کو ایک مینڈھا فدیہ دینا ہو گا ۔ “
تشریح : فوائد ومسائل۔1۔اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہواکہ لگڑ بگڑ کاکھانا حلال ہے۔کیونکہ اسے نبی کریمﷺ نے شکار قرا ر دیا ہے۔یعنی جس کا شکارکرکے کھانا جائز ہے۔2۔دوسرا یہ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں محرم اگر کسی جانور کاشکارکرلےگا تو اسے اس جانور کے مثل فدیہ ضروری ہوگا۔اور یہ مثلیت ظاہری جسم کے ڈیل ڈول(قدوقامت) کے حساب سے ہوگی۔ نہ کہ قیمت کے اعتبارسے جیسے لگڑ بگڑ اور مینڈھا جسامت کے اعتبارسے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔3۔لگڑ بھگڑ بھی ذوناب جانور ہے۔اور ہر ذوناب درندہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔پھر اسے اس حدیث میں کیوں حلال قرار دیا گیا ہے۔امام خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کل زی ناب من السباع کے عموم سے اس کی تخصیص ہوگئی ہے۔اور امام ابن قیم نے کہا ہے کہ لگڑ بگڑ (ضبع) بھی اگرچہ درندہ ہی ہے لیکن ہردرندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں۔ ایک کچلیوں کاہونا او ردوسرا عادی درندہ ہونا اوردرندہ کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔اس لئے کہ دونوںوصف رکھنے والے جانوروں کے کھانے سے کھانے والے کو اندر بھی درندگی والی قوت آجاتی ہے۔جیسے شیر ۔لومڑی۔وغیرہ ہیں۔اورلگڑ بگڑ کچلیاں والا تو ہے۔لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں ہے جومذکورہ جانوروں میں ہے اس لئے اس کو حلال قرار دیاگیا ہے۔واللہ اعلم۔(تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود) فوائد ومسائل۔1۔اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہواکہ لگڑ بگڑ کاکھانا حلال ہے۔کیونکہ اسے نبی کریمﷺ نے شکار قرا ر دیا ہے۔یعنی جس کا شکارکرکے کھانا جائز ہے۔2۔دوسرا یہ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں محرم اگر کسی جانور کاشکارکرلےگا تو اسے اس جانور کے مثل فدیہ ضروری ہوگا۔اور یہ مثلیت ظاہری جسم کے ڈیل ڈول(قدوقامت) کے حساب سے ہوگی۔ نہ کہ قیمت کے اعتبارسے جیسے لگڑ بگڑ اور مینڈھا جسامت کے اعتبارسے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔3۔لگڑ بھگڑ بھی ذوناب جانور ہے۔اور ہر ذوناب درندہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔پھر اسے اس حدیث میں کیوں حلال قرار دیا گیا ہے۔امام خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کل زی ناب من السباع کے عموم سے اس کی تخصیص ہوگئی ہے۔اور امام ابن قیم نے کہا ہے کہ لگڑ بگڑ (ضبع) بھی اگرچہ درندہ ہی ہے لیکن ہردرندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں۔ ایک کچلیوں کاہونا او ردوسرا عادی درندہ ہونا اوردرندہ کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔اس لئے کہ دونوںوصف رکھنے والے جانوروں کے کھانے سے کھانے والے کو اندر بھی درندگی والی قوت آجاتی ہے۔جیسے شیر ۔لومڑی۔وغیرہ ہیں۔اورلگڑ بگڑ کچلیاں والا تو ہے۔لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں ہے جومذکورہ جانوروں میں ہے اس لئے اس کو حلال قرار دیاگیا ہے۔واللہ اعلم۔(تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود)