كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي أَكْلِ حَشَرَاتِ الْأَرْضِ ضعيف الإسناد حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ فَتَلَا قُلْ لَا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا الْآيَةَ قَالَ قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ خَبِيثَةٌ مِنْ الْخَبَائِثِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا فَهُوَ كَمَا قَالَ مَا لَمْ نَدْرِ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
باب: زمین کے اندر رہنے والے جانوروں کا کھانا
عیسیٰ بن نمیلہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کے پاس تھا کہ ان سے خار پشت ( سہہ ) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے سورۃ الانعام کی یہ آیت تلاوت فرمائی «قل لا أجد في أوحي إلي محرما» ” کہہ دیجئیے کہ بذریعہ وحی جو احکام میرے پاس آئے ہیں ان میں سے میں کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز جسے وہ کھانا چاہے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ‘ بیشک وہ ناپاک ہے یا وہ فسق ہے کہ ( ذبح کرتے وقت ) اس پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو ‘ پھر جو شخص مجبور ہو جائے ‘ ( بشرطیکہ ) وہ سرکشی کرنے والا اور حد سے گزرنے والا نہ ہو ‘ تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ “ مجلس میں سے بڑی عمر کے ایک آدمی نے کہا : میں نے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے : رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کا ذکر ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” خبیث جانوروں میں سے ایک خبیث جانور ہے ۔ “ سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو پھر بات وہی ( صحیح ) ہے جو آپ ﷺ نے فرمائی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ۔
تشریح :
فائدہ۔خار پشت کی حلت وحرمت کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔بعض نے اسے حلال اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے۔تاہم شیخ ابن باز اس کی بابت فرماتے ہیں۔ کہ یہ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ حلال ہے۔کیونکہ حیوانات کے بارے میں اصل حلت ہے۔اور ان میں صرف وہی حرام ہیں جنھیں شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔اور اس کی بابت شریعت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ جانور حرام ہیں۔یہ خرگوش اور ہرن کی طرح نباتات کھاتا ہے اورکچلی سے شکار کرے والے درندوں میں سے بھی نہیں ہے۔لہذا اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔یہ مذکورہ حیوان سہیہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔اسے دلدل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔جبکہ مذکورہ روایت علمائے محققین کے نزدیک سندا ضعیف ہے۔(فتاویٰ اسلامیہ جلد ۔سوم)
فائدہ۔خار پشت کی حلت وحرمت کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔بعض نے اسے حلال اور بعض نے اسے حرام قرار دیا ہے۔تاہم شیخ ابن باز اس کی بابت فرماتے ہیں۔ کہ یہ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ حلال ہے۔کیونکہ حیوانات کے بارے میں اصل حلت ہے۔اور ان میں صرف وہی حرام ہیں جنھیں شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔اور اس کی بابت شریعت میں ایسی کوئی دلیل وارد نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ جانور حرام ہیں۔یہ خرگوش اور ہرن کی طرح نباتات کھاتا ہے اورکچلی سے شکار کرے والے درندوں میں سے بھی نہیں ہے۔لہذا اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔یہ مذکورہ حیوان سہیہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔اسے دلدل کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔جبکہ مذکورہ روایت علمائے محققین کے نزدیک سندا ضعیف ہے۔(فتاویٰ اسلامیہ جلد ۔سوم)