Book - حدیث 3790

كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ ضعیف حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شَبِيبٍ وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ قَالَ حَيْوَةُ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ وَالْبِغَالِ وَالْحَمِيرِ زَادَ حَيْوَةُ وَكُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ قَالَ أَبُو دَاوُد لَا بَأْسَ بِلُحُومِ الْخَيْلِ وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا مَنْسُوخٌ قَدْ أَكَلَ لُحُومَ الْخَيْلِ جَمَاعَةٌ مَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ ابْنُ الزُّبَيْرِ وَفَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ وسُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ وَعَلْقَمَةُ وَكَانَتْ قُرَيْشٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْبَحُهَا

ترجمہ Book - حدیث 3790

کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل باب: گھوڑے کا گوشت کھانے کا مسئلہ سیدنا خالد بن ولید ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے ‘ خچر اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ حیوہ بن شریح نے مزید کہا : درندوں میں سے ہر ناب دار ( کچلی والے ) جانور سے بھی منع فرمایا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ امام مالک ؓ کا بھی یہی قول ہے ( یعنی گھوڑا مکروہ ہے ) ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا کہ گھوڑے کے گوشت میں کوئی حرج نہیں مگر اس پر عمل نہیں ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اور یہ ( روایت جس میں گھوڑے کے گوشت کھانے کی ممانعت ہے ) منسوخ ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت نے گھوڑے کا گوشت کھایا ہے ۔ ان میں سیدنا ابن زبیر ‘ فضالہ بن عبید ‘ انس بن مالک ‘ اسماء بنت ابی بکر ‘ سوید بن غفلہ اور علقمہ ؓ کا نام آتا ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قریشی لوگ گھوڑا ذبح کیا کرتے تھے ۔
تشریح : توضیح۔گھوڑے کا گوشت حلال اورطیب ہے۔ہمارے ہاں اس کارواج نہ ہونا الگ بات ہے۔دیکھیے۔(صحیح البخاری۔الذبائع والصید۔باب لحوم الخیل۔حدیث5519۔ وباب النحر وزبح حدیث 5511۔5510۔وصحیح مسلم الصید والذبائع باب اباحۃ اکل لحم الخیل حدیث 1942۔1941)اور یہ آخری روایت (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ )ضعیف ہے۔اسے امام احمد بخاری۔موسیٰ بن ہارون دراقطنی خطابی ابن عبد البر اور عبد الحق وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف سنن ابی دائود میں درج کیا ہے۔بعض اہل علم سورہ نحل کی آیت مبارکہ( قرآن )وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (قرآن ۚ)(النحل۔8)اللہ نے گھوڑوں خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا۔کہ تم ان پرسواری کرو۔اور یہ تمہارے لئے باعث زینت بھی ہیں۔سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ یہ جانور کھانے کےلئے نہیں ہیں۔(لہذا حرام ہیں۔)ان حضرات کااستدلال صحیح نہیں۔کیونکہ آیت کریمہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ یہ جانورمحض سواری اور زینت ہی کےلئے ہیں۔دیگر فوائد حاصل کرنا ناجائز ہیں۔چونکہ مذکورہ فوائد اہم تر تھے اس لئے قرآن کریم نے ان کازکرفرمایا ہے۔جیسے کہ سورہ مائدہ میں ہے ( قرآن) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ (قرآن)المائدہ۔3) تم پرمردار خون اور خنزیر کاگوشت حرام کیاگیاہے۔اس میں خنزیر کے صرف گوشت کا زکر ہوا ہے ۔کیونکہ اہم شے یہی ہے۔حالانکہ دیگراشیاء ہڈی اوردوسرے اجزاء کا بھی یہی حکم ہے اور انکے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔اس مذکورہ سیاق میں گھوڑے پر بوجھ لادنے کا زکر بھی نہیں ہے۔تو کیا گھوڑے پر بوجھ لادنا جائز سمجھ لیاجائے؟یہ بات عقل ونقل کے سراسر خلاف ہوگی۔اس طرح سے اس کے حرام ہونے کا استدلال بھی قطعا ً درست نہیں۔شروع آیات میں ہے۔ ( قرآن) وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (قرآن )(النحل۔5) اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس ہیں۔اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ اور کئی تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔تو یہاں اہم فوائد کا زکر کردیا گیا ہے۔اور باقی کوچھوڑ دیا گیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(معالم السنن وعون المعبود) توضیح۔گھوڑے کا گوشت حلال اورطیب ہے۔ہمارے ہاں اس کارواج نہ ہونا الگ بات ہے۔دیکھیے۔(صحیح البخاری۔الذبائع والصید۔باب لحوم الخیل۔حدیث5519۔ وباب النحر وزبح حدیث 5511۔5510۔وصحیح مسلم الصید والذبائع باب اباحۃ اکل لحم الخیل حدیث 1942۔1941)اور یہ آخری روایت (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ )ضعیف ہے۔اسے امام احمد بخاری۔موسیٰ بن ہارون دراقطنی خطابی ابن عبد البر اور عبد الحق وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف سنن ابی دائود میں درج کیا ہے۔بعض اہل علم سورہ نحل کی آیت مبارکہ( قرآن )وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (قرآن ۚ)(النحل۔8)اللہ نے گھوڑوں خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا۔کہ تم ان پرسواری کرو۔اور یہ تمہارے لئے باعث زینت بھی ہیں۔سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ یہ جانور کھانے کےلئے نہیں ہیں۔(لہذا حرام ہیں۔)ان حضرات کااستدلال صحیح نہیں۔کیونکہ آیت کریمہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ یہ جانورمحض سواری اور زینت ہی کےلئے ہیں۔دیگر فوائد حاصل کرنا ناجائز ہیں۔چونکہ مذکورہ فوائد اہم تر تھے اس لئے قرآن کریم نے ان کازکرفرمایا ہے۔جیسے کہ سورہ مائدہ میں ہے ( قرآن) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ (قرآن)المائدہ۔3) تم پرمردار خون اور خنزیر کاگوشت حرام کیاگیاہے۔اس میں خنزیر کے صرف گوشت کا زکر ہوا ہے ۔کیونکہ اہم شے یہی ہے۔حالانکہ دیگراشیاء ہڈی اوردوسرے اجزاء کا بھی یہی حکم ہے اور انکے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔اس مذکورہ سیاق میں گھوڑے پر بوجھ لادنے کا زکر بھی نہیں ہے۔تو کیا گھوڑے پر بوجھ لادنا جائز سمجھ لیاجائے؟یہ بات عقل ونقل کے سراسر خلاف ہوگی۔اس طرح سے اس کے حرام ہونے کا استدلال بھی قطعا ً درست نہیں۔شروع آیات میں ہے۔ ( قرآن) وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (قرآن )(النحل۔5) اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس ہیں۔اور بھی بہت سے منافع ہیں۔ اور کئی تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔تو یہاں اہم فوائد کا زکر کردیا گیا ہے۔اور باقی کوچھوڑ دیا گیا ہے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(معالم السنن وعون المعبود)