كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ بَابٌ فِي أَكْلِ الدُّبَّاءِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ إِنَّ خَيَّاطًا دَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَهُ قَالَ أَنَسٌ فَذَهَبْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ذَلِكَ الطَّعَامِ فَقُرِّبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا مِنْ شَعِيرٍ وَمَرَقًا فِيهِ دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ قَالَ أَنَسٌ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوَالَيْ الصَّحْفَةِ فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ بَعْدَ يَوْمَئِذٍ
کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
باب: کدو کھانے کا بیان
سیدنا انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا جو اس نے تیار کیا تھا ۔ سیدنا انس ؓ نے کہا : میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کھانے میں گیا تھا ۔ پس اس نے رسول اللہ ﷺ کو جَو کی روٹی اور شوربا پیش کیا جس میں کدو اور خشک گوشت تھا ۔ سیدنا انس ؓ نے کہا : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ پیالے کے اطراف سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر رہے تھے ‘ چنانچہ اس دن کے بعد میں کدو کو بہت پسند کرنے لگا ہوں ۔
تشریح :
فوائد ومسائل۔1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت کا یہ مظہرتھا کہ شرعی امور کے علاوہ عام عادات میں بھی وہ آپﷺ کی اقتداء کرتے تھے۔اور آپ ﷺ بھی بلاامتیازان کی دعوتیں قبول فرماتے تھے۔ نیز درزی کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی عیب نہیں۔2۔دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ کھانا اپنے سامنے میں سے کھانا چاہیے۔تو ان احادیث میں تطبیق یوں ہے کہ جب کھانے میں مختلف اشیاء ہوں۔اور کوئی نسبتا ً کم درجے کی چیز تلاش کرکے کھانا چاہے جسے کھانے میں شریک ساتھی بھی ناگوار نہ سمجھیں تو جائز ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی اسطرح تربیت فرمائی کہ کھانے کی نسبت کم قیمت چیز بھی رغبت سے کھانی چاہیے۔کیونکہ ہر چیز کے اپنے اپنے فائدے ہیں۔جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اور اب جدید العلم الاغذیہ نے اس بات کو خصوصا سبزیوں کے فائدے کو اپنے طریق پر واضح کر کے رسالت مآب ﷺ کی سنت کی حکمت کو اجاگر کیاہے۔
فوائد ومسائل۔1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت کا یہ مظہرتھا کہ شرعی امور کے علاوہ عام عادات میں بھی وہ آپﷺ کی اقتداء کرتے تھے۔اور آپ ﷺ بھی بلاامتیازان کی دعوتیں قبول فرماتے تھے۔ نیز درزی کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی عیب نہیں۔2۔دوسری حدیث میں جو آیا ہے کہ کھانا اپنے سامنے میں سے کھانا چاہیے۔تو ان احادیث میں تطبیق یوں ہے کہ جب کھانے میں مختلف اشیاء ہوں۔اور کوئی نسبتا ً کم درجے کی چیز تلاش کرکے کھانا چاہے جسے کھانے میں شریک ساتھی بھی ناگوار نہ سمجھیں تو جائز ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کی اسطرح تربیت فرمائی کہ کھانے کی نسبت کم قیمت چیز بھی رغبت سے کھانی چاہیے۔کیونکہ ہر چیز کے اپنے اپنے فائدے ہیں۔جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اور اب جدید العلم الاغذیہ نے اس بات کو خصوصا سبزیوں کے فائدے کو اپنے طریق پر واضح کر کے رسالت مآب ﷺ کی سنت کی حکمت کو اجاگر کیاہے۔